منگل, ستمبر 17, 2024
اشتہار

"ناغے کے مزے لوٹے ہر دور میں ناغہ خوروں نے!”

اشتہار

حیرت انگیز

مصنّف: شائستہ زرّیں

بچپن کی یادوں نے جب بھی ہمیں ستایا تو جہاں بچپن کے سنگی ساتھی یاد آئے وہاں اسکول کا زمانہ بھی بہت یاد آیا۔

اسکول کا ذکر آئے اور ناغے کی بات نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں اور ہمارا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ دورِ ضعیفی میں بھی جب ماضی اپنی گرفت میں لیتا ہے تو بچپن کی یادوں اور باتوں میں ناغے کے دن بہت ستاتے ہیں۔ ممکن ہے اوروں کامشاہدہ اور تجربہ ہمارے مشاہدے کے برعکس ہو۔ بات ہو رہی تھی ناغے کی۔ زمانۂ طالبعلمی میں نیا کیلینڈر اسی لیے تو اچھا لگتا تھاکہ اس میں سال بھر کی تعطیلات کی فہرست بھی ہوتی تھی اور اگر کوئی چھٹّی اتوار کو پڑ جاتی تو ناغہ کا سارامزہ کرکرا ہو جاتا۔ یہ چھٹیاں بہت پُرلطف ہوتیں۔ پھر یوں ہوا کہ اسکول کا زمانہ بھی رخصت ہوا۔ اسکول کو خیرباد کہہ کر ہم نے کالج کی راہ پکڑی تو آئے دن کے ”ہڑتالی ناغوں“ نے ناغے کی ساری خوشی خاک میں ملا دی اور ناغہ ہماری آنکھوں میں خار بن کر کھٹکنے لگا۔ ہر بات کی آخر ایک حد اور خصوصی ناغوں کی لذت ہی الگ ہوتی ہے۔

- Advertisement -

آج یادوں نے ذہن پر دستک دی تو جہاں زمانۂ طالبعلمی کے ناغوں نے اپنے حصار میں لیا وہاں انواع و اقسام کے ناغہ خوروں کا خیال بھی ہمیں ستانے لگا۔ ان میں سے بعض تفریحاً، چند مجبوراً، اکثر عادتاً اور کچھ تقلیداً ناغہ کرتے ہیں۔ آخری قسم کے ناغہ خور وہ ہیں جو اچھے بھلے جی رہے ہوتے ہیں، عادی ناغہ خوروں کو دیکھ کر اُنھیں بھی ناغہ کی ہڑک اُٹھتی ہے اور وہ ناغہ کا ذائقہ چکھنے کو بے چین ہوجاتے ہیں، لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں اوراپنے تو اپنے غیر بھی اُن کے ہنر کی داد دیتے نظر آتے ہیں۔ ان روایتی و مثالی ناغہ خوروں کے درمیان کئی ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جو ناغہ کے تصور ہی سے خائف ہو جاتے ہیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے ناغہ جن کے لیے پیغامِ حیات لاتا ہے۔ ناغہ خوروں کی وجہ سے اُن کی چاندی جو ہو جاتی ہے۔ ظہیر کو جمعہ کو بخار چڑھا، ہفتہ ناغہ ہوا، اتوار کو دوبارہ اُسے بخار نے آ لیا، پیر کو ایک مرتبہ پھر ناغہ۔ ظہیر تو بوکھلا گیا۔ ڈاکٹر کے پاس گیا اور اُنھیں اپنا فسانۂ درد سنا کر پوچھا ؎ اے مسیحا یہ ماجرا کیا ہے؟

ڈاکٹر نے حسبِ پیشہ دو بول تسلی کے دیے، دو سو فیس کے لِیے اور دو ہزار کے ٹیسٹ ظہیر کی نذر کیے تو وہ تلملا گیا۔ اوائلِ بچپن ہی سے اُسے ٹیسٹ سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ اِدھر ڈاکٹر نے اُس کے ہاتھ میں ٹیسٹ کا پرچہ تھمایا، اُدھر یک بیک وہ اپنے بچپن میں پہنچ گیا جب عین ٹیسٹ والے روز بالکل اچانک اُس کے کسی بھی حصہ جسم میں درد کا ایسا شدید حملہ ہوتا کہ وہ بے حال ہو جاتا۔ درد چونکہ نظر بھی نہیں آتا، اسے وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس میں مبتلا ہو۔ سو، ظہیر مزے سے ناغہ کر لیتا اور ایسا ہر اُس دن ہوتا جب ماہانہ ٹیسٹ ہوتا۔ باقی دن وہ چین کی بانسری بجاتا اور ماہانہ ٹیسٹ ختم ہوتے ہی پہلے کی طرح ہشاش بشاش ہو جاتا۔ گھر والے اِس صورت حال سے حیران و پریشان تھے، لیکن اللہ جانے ظہیر نے ڈاکٹر سے کیا ساز باز کر رکھی تھی کہ وہ بھی ظہیر کے ساتھ شریک ہوجاتے اور اب جو برسوں بعد ظہیرکو درحقیقت ناغہ کا بخارچڑھا تو وہ خود ڈاکٹر کی سازش کا شکار ہو گیا کہ ٹیسٹ کی نوعیت بے شک بدل گئی تھی لیکن اس کی یہ ہیَت خاصی ہیبت ناک تھی۔ یکایک ظہیر کو احساس ہوا کہ اسکول کے ٹیسٹ تو بہت بے ضرر اور تعلیمی سفر کا زادِ راہ ہوا کرتے تھے اور یہ ٹیسٹ جیب کٹنے کی علامت ہیں۔ اُس کی مہینہ بھر کی خون پسینے کی کمائی کا بڑا حصہ ناغہ کی اذیت کی نذرہو گیا تو زندگی میں پہلی بار ناغہ سخت برا لگا اور اُسے اپنا مصلحتاً کیا جانے والا ناغہ بلکہ بے دریغ ناغے یاد آگئے۔

شوکت کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں تفریحاً ناغہ کی بہت سوجھتی ہے۔ مثلاً اگر کل میں دفتر سے ناغہ کر لوں تو مزہ ہی آجائے، کئی روز ہوئے گرلز کالج کا چکر نہیں لگایا، ایک دن کے ناغہ کے عوض دل لگی میں کیا برائی ہے؟ بہت ممکن ہے، ایک دن کی دل لگی شوکت کی شان و شوکت میں اضافے کا سبب بن کر دائمی خوشیوں کی نوید دے دے۔ شوکت نے اپنا سراپا آئینے میں دیکھ کرسوچا اور دفترسے ناغہ کر کے گرلز کالج کی راہ پکڑی۔ اب یہ شوکت کے نصیب کہ اُن کی شان تو کیا بڑھتی ہاں رہی سہی شوکت بھی خاک میں مل گئی۔اُس روز ناغہ کے طفیل شوکت کی وہ بھد اڑی کہ دفترسے مستقل ناغہ کی نوبت آگئی کہ جس لڑکی کو وہ شیشے میں اُتارنے کی ناکام کوشش کررہے تھے وہ کوئی اور نہیں اُن کے باس کی بیٹی تھی۔

ناغہ ہر ایک کو راس نہیں آتا۔ ہفتہ وار سرکاری تعطیل کے علاوہ بھی ہفتہ وار ناغہ کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی ہمیں وہ ناغہ یاد آگیا جس کی اطلاع نے ایک پل میں ہمیں کئی کیفیتوں سے گزار دیا تھا۔ آج آپ بھی اس ناغہ کی روداد سے لطف اندوز ہوں۔

استاد کی زبان سے ادا ہونے والا ایک تاکیدی جملہ بھی شاگردوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے، سو پروفیسر صاحب کا ہدایت نامہ ہم نے بھی بصد عجز و نیاز سُنا کہ ”منگل کے علاوہ کسی روز بھی آجانا کہ منگل کو میرا اور گوشت کا ناغہ ہوتا ہے۔“ منگل کے گوشت کا ناغہ تو بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں لیکن پروفیسر صاحب کے منگل کے ناغہ کا ذکر سُن کر ہم چونکے بغیر نہ رہ سکے۔ ہمیں زمانۂ طالبعلمی یاد آگیا جب بغیر اطلاع ناغہ کرنے پر طالبعلموں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاتی تھی اور اطلاعی ناغہ کرنے والوں سے بھی باز پُرس ضرور کی جاتی تھی۔ دستاویزی ثبوت کافی نہ سمجھا جاتا تھا۔ اب جو پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تو خیال آیا کہ پروفیسر صاحب بلاجواز اتنے دھڑلّے سے ہفتہ وار ناغہ کی تہمت نہیں اٹھا سکتے۔ یقیناً منگل کو تنقید، تحقیق و تخلیق کے نت نئے در وا ہوتے ہوں گے کہ تینوں امور پروفیسر صاحب کی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ منگل شادمانی کو کہتے ہیں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ منگل کو ناغہ کر کے پروفیسر صاحب فال نکالتے ہوں کہ امتحان کے لیے کون سی شبھ گھڑی ہو گی جب طالبعلم خلافِ توقع پرچہ دیکھ کر بھی اپنی تمام تر توجہ پرچے پر ہی مرکوز رکھیں گے اور کسی بھی اشتعال یا انتقام کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوں گے۔

پروفیسر صاحب کے ناغہ کی گتھی تھی کہ سلجھ کر ہی نہیں دے رہی تھی، یکایک ہمیں اُن ناغہ خوروں کا خیال آگیا جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک دانا کا تجربہ بھی یاد آگیا کہ ”قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا“ تب ہمیں ایک اور پروفیسر صاحب یاد آگئے جو پڑھاتے بیشک بہت اچھا تھے لیکن قدر کھو دینے کے خدشے کے تحت تین دن ہونے والی کلاس میں سے بھی ایک دن ناغہ ضرورکرتے اور شاگرد ایسے ناخلف اور ناقدرے کہ اُستاد کی دانائی کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اُن سے ایسے بدظن ہوئے کہ اُن کی قدر و منزلت تک دل سے نکال بیٹھے، لیکن جن پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تھا وہ تو تدریسی ذمہ داریاں نباہنے میں بے مثال ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کے ساتھ گوشت کے ناغہ کا ذکر کیوں کیا؟ ہماری سُوئی تو یہیں آکر اٹک گئی تھی۔ ”بذلہ سنج ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں“ ہمارے دماغ نے ہمیں راہ دکھائی۔

پروفیسر صاحب کی حکمت کا راز جانتے جانتے ہم نے خود حکمت کے موتی چننے شروع کردیے مگر عقدہ تھا کہ حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا کہ آخر منگل کو ہی ناغہ کیوں؟ جب کچھ لوگ اگر گوشت کے ناغہ کا غم منا رہے ہوتے ہیں تو بعض لوگ ناغہ کی مدت جلد ختم ہونے کی مسرت سے دوچار ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا ناغہ گورکھ دھندا بن گیا، ایسا پیچیدہ معاملہ جس میں الجھ کر خیال کے نت نئے پھول تو کھل گئے مگر ناغہ کا سراغ پھر بھی نہ مل سکا۔ اگر آپ میں ہمت ہے تو سراغ لگا لیجیے! شاید یہ کام یابی آپ کے حصے میں آجائے اور ہم پر بھی پروفیسر صاحب کا منگل کا ناغہ اور وہ بھی گوشت کے ناغہ کے ساتھ مذکور ناغہ کا راز منکشف ہوجائے۔

ہاں ایک عہدے دارایسا بھی ہے جس کے ذمے ناغہ کرنے اور نہ کرنے والوں کی فہرست درج کرنا لکھا ہوتا ہے جسے اپنے ناغے سے زیادہ اوروں کے ناغے کا خیال ہی نہیں رہتا بلکہ وہ اُن کے ناغوں کا حساب اور ریکارڈ تک اپنے پاس رکھتا ہے۔ تمام ناغہ خوروں کے مزاج اور مسائل بھی سمجھتا ہے تو کیوں نہ ناغہ نویس سے ملا جائے جو عمرکے ہر حصے میں ناغہ کے مزے لوٹنے والوں کے تمام حربوں، حیلوں اور جواز سے واقف ہوگا۔ شاید ناغہ نویس کے توسط سے ہم مزید ناغہ خوروں سے ملاقات کر لیں۔ اُن ناغہ خوروں سے جو سرِدست ہماری دسترس سے دُور ہیں اور شاید اس طرح ہمارے علمِ ناغہ خوری میں قابلِ قدر اضافہ ہو جائے۔ لیکن یہ اضافہ طالبعلم بھی تو کر سکتے ہیں کہ ناغہ کی اصل عادت تو اسکول کے زمانے ہی سے پڑتی ہے نا؟ کیا خیال ہے؟

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں