اشتہار

شکیب جلالی: وہ شاعر جس نے صرف 32 سال کی عمر میں‌ زندگی سے ناتا توڑ لیا

اشتہار

حیرت انگیز

12 نومبر شکیب جلالی کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ 1966ء میں اس روز انھوں نے خودکُشی کرلی تھی۔ شکیب جلالی دنیائے ادب میں اپنی خوب صورت شاعری کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔ 32 سال کی عمر میں‌ اس نوجوان شاعر نے ٹرین کے سامنے آکر اپنی زندگی ختم کرلی تھی۔

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

بدقسمتی سے شکیب نے نوعمری میں اپنی والدہ کو اسی طرح ٹرین کے نیچے آکر زندگی کا خاتمہ کرتے دیکھا تھا۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ اور وہ سانحہ تھا جس نے شکیب کو ہمیشہ مضطرب رکھا اور وہ شدید ڈپریشن کا شکار رہے۔ کوئی پختہ عمر اور مضبوط اعصاب کا مالک بھی شکیب جلالی کی جگہ ہوتا تو اسی کرب اور اذیت سے دوچار ہوتا جس نے شکیب کو ہمیشہ بے حال رکھا، اس وقت وہ صرف دس سال کے تھے۔ ان کی والدہ نے بریلی ریلوے اسٹیشن پر خود کشی کی تھی۔

- Advertisement -

ان کا اصل نام سیّد حسن رضوی تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1934ء کو علی گڑھ (اتر پردیش) کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد شکیب جلالی کا خاندان پاکستان آگیا تھا۔ ان کے ذہن کے پردے پر وہ قیامت خیز منظر ایک فلم کی طرح چلتا رہتا تھا۔ وہ شدید ذہنی کرب اور ہیجان میں‌ مبتلا رہے اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو کر ایک دن خود بھی سرگودھا میں موت کو گلے لگا لیا۔ شکیب جلالی لاہور میں ذہنی امراض کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہے تھے۔

شکیب جلالی کس ماحول کے پروردہ تھے۔ ان کے گھریلو اور معاشی حالات کیسے تھے اور اپنے والدین کو انھوں نے کیسا پایا، یہ جان لیا جائے تو ان کی خود کُشی کی بنیادی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔ تاہم ان کی والدہ کی موت کے سانحے کو دو طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ شکیب کے والد بھی ذہنی مریض اور نفسیاتی عوارض کا شکار تھے۔ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے مسائل اور پریشانی نے شکیب جلالی کی والدہ کو خود کشی پر آمادہ کرلیا تھا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ان کے والد اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے اور انھوں نے ہی اپنی بیوی کو ٹرین کے آگے دھکیل دیا تھا۔

قیامِ پاکستان کے بعد اردو شاعری میں شکیب جلالی اپنے جداگانہ انداز کے سبب ہم عصرو‌ں میں نمایاں ہوئے۔ ان کا مجموعہٌ کلام اُن کی خودکُشی کے بعد احمد ندیم قاسمی نے شایع کروایا۔ شکیب جلالی کو جدید شاعری کا نمایاں ترین شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

شکیب جلالی نے بدایوں سے میٹرک کیا۔ ہجرت کے بعد سیالکوٹ سے ایف اے اور لاہور کی درس گاہ سے بی اے آنرز کرنے والے شکیب جلالی ایم اے کرنا چاہتے تھے، لیکن کسی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ شکیب نے چند ادبی جرائد میں کام کیا، اور بعد میں ایک اخبار سے منسلک ہوگئے۔ پھر انھیں ایک محکمہ میں ملازمت مل گئی، لیکن اس عرصہ میں ان کی ذہنی الجھنیں بڑھ گئی تھیں۔ تاہم مشقِ سخن جاری رہی۔ شکیب جلالی نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن کو اپنی فکرِ تازہ سے وہ دل کشی اور نغمگی عطا کی جس نے انھیں ہم عصر شعرا کے درمیان امتیاز اور خوب شہرت دی۔ ان کا لہجہ تازہ اور آہنگ سب سے جدا تھا۔ وہ اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر کہلائے۔

روشنی اے روشنی ان کا وہ شعری مجموعہ ہے جو 1972ء میں شایع ہوا۔ 2004ء میں شکیب جلالی کا کلّیات بھی منظرِ‌ عام پر آیا۔

شکیب جلالی نے اپنے اشعار سے جہاں ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا، وہیں باذوق قارئین میں بھی مقبول ہوئے۔ ان کی غزلیں گنگنائی گئیں، ان کے اشعار لوگوں کو زبانی یاد تھے۔

شکیب جالی کے چند مشہور اشعار پڑھیے۔

شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں