ہندوستانی فلموں کے لیے شمشاد بیگم نے پسِ پردہ کلاسیکی گائیکی میں اپنی منفرد آواز کی بدولت صفِ اوّل کی گلوکارہ کے طور پر شہرت پائی۔ شمشاد بیگم کے گائے ہوئے گانے آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے آج سے کئی سال قبل تھے۔ ان کے گانوں کے ری مکس بھی بہت مقبول ہوئے جو نئے گلوکاروں اور موسیقاروں نے تیار کیے تھے۔
شمشاد بیگم 23 اپریل 2013ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ گلوکارہ شمشاد بیگم نے لاہور ریڈیو سے 1937 میں اپنی گائیکی کا سفر شروع کیا تھا جو اس دور میں آل انڈیا ریڈیو کے تحت ہندوستان کے طول و عرض میں مقبول تھا۔ گلوکارہ شمشاد بیگم کی صاف اور واضح آواز سامعین کو بہت پسند تھی۔ ان کی آواز سن کر سارنگی نواز استاد حسین بخش نے انھیں اپنی شاگردی میں لیا۔ شمشاد بیگم کی آواز سننے والوں نے 1970ء کی دہائی میں انھیں پہلی بار دیکھا، کیونکہ وہ اپنی تصاویر کھنچوانے سے ہمیشہ کتراتی تھیں۔ ہندوستان کے نامور موسیقاروں او پی نیر اور نوشاد علی کے ساتھ کام کرنے والی ششماد بیگم کے ساتھی گلوکاروں میں لتا منگیشکر، آشا بھوسلے اور محمد رفیع شامل ہیں۔ اس دور میں لاہور کے فلمی مرکز سے موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے شمشاد بیگم کی آواز کو چند فلموں میں استعمال کیا تھا جن میں 1941 میں بننے والی فلم ’خزانچی‘ اور 1942 کی ’خاندان‘ شامل ہیں۔ 1944 میں وہ ممبئی منتقل ہو گئیں اور کئی کام یاب فلموں کے لیے اپنی آواز میں گانے ریکارڈ کروائے۔ ان کے گیتوں میں ’لے کر پہلا پہلا پیار‘، ’میرے پیا گئے رنگون‘، ’ کبھی آر کبھی پار لاگا تیر نظر‘، ’ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘ شامل ہیں۔ یہ وہ گیت ہیں جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ اس کے علاوہ فلمی نغمات میں ’مدر انڈیا‘ کا ہولی کا گیت ’ہولی آئی رے کنہائی‘ اور ’مغل اعظم‘ کی قوالی ’تیری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے‘ بھی مقبول ہوئے۔
سنہ 2009 میں شمشاد بیگم کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا تھا۔ اسی سال وہ او پی نیّر اعزاز کی حق دار ٹھیریں۔ شمشاد بیگم 14 اپریل 1919 کو بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئی تھیں۔