نئی دہلی: اردو زبان و ادب کے معروف نقاد، شاعر اور ناول نگار شمس الرحمٰن فاروقی 85 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
تفصیلات کے مطابق شمس الرحمٰن فاروقی کو کرونا وائرس لاحق ہوا تھا جس سے صحت یاب بھی ہو گئے تھے، تاہم اس کے اثرات کی وجہ سے وہ کافی دنوں سے علیل تھے۔
شمس الرحمٰن فاروقی آج صبح ہی دہلی سے ایک پرواز کے ذریعے الہ آباد پہنچے تھے، جہاں ان کا انتقال ہو گیا، ان کے انتقال سے ادبی دنیا کو ناقابل تلافی نقصال پہنچا ہے۔
معروف نقاد اور شاعر فاروقی کی تدفین آج شام جامعہ کے نزدیک اشوک نگر کے قبرستان میں انجام دی گئی۔
شمس الرحمٰن فاروقی کو دنیائے ادب میں ایک زیرک تنقید نگار کے طور پر جانا جاتا ہے، انھوں نے ادبی تنقید کے مغربی اصولوں کو سمجھا اور پھر اردو ادب میں ان کا اطلاق کیا۔
شمس الرحمٰن 30 ستمبر 1935 کو پیدا ہوئے تھے، آزاد خیال ماحول میں پرورش پائی، انھوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کئی مقامات پر ملازمت کی، اور 1960 میں ادبی دنیا میں قدم رکھا۔
وہ 1960 سے 1968 تک انڈین پوسٹل سروسز میں پوسٹ ماسٹر رہے اور اس کے بعد چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اور 1994 تک پوسٹل سروسز بورڈ، نئی دہلی کے رکن بھی رہے۔
شمس الرحمٰن نے امریکا کی پنسلوانیا یونی ورسٹی میں ساؤتھ ایشیا ریجنل اسٹڈیز سینٹر کے پارٹ ٹائم پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
فاروقی الہ آباد میں معروف ادبی جریدے ’شب خوں‘ کے ایڈیٹر رہے، ان کی تصانیف کئی چاند تھے سرِ آسماں، افسانے کی حمایت میں اور اردو کا ابتدائی زمانہ کو اردو ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ان کی سب سے منفرد تصنیف شعر شور انگیز ہے جو میر تقی میر کی شاعری پر ہے۔
شمس الرحمٰن کو اردو ادب میں منفرد خدمات پر سرسوتی ایوارڈ کے علاوہ 1986 میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، سال 2009 میں انھیں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔