اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی، مریم نواز اور کیپٹن ( ر) صفدر کےوکیل نے دلائل مکمل کرلیے۔
تفصیلات کے مطابق آج بروز بدھ اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل ڈویژنل بنچ نے شریف خاندان کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کی، نواز شریف کی جانب سے خواجہ حارث ایڈوکیٹ جبکہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے امجد پرویز ایڈوکیٹ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
عدالت میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل پرویز امجد نے اپنے دلائل مکمل کیے، گزشتہ سماعت پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل مکمل کیے گئے تھے۔نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی 16 اگست کو دلائل مکمل کریں گے۔
سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسین نے سوال کیا کہ لندن فلیٹس کا سیٹلر کون ہے؟، جس پر امجد پرویز نے عدالت کو جواب دیا کہ ’ حسن نواز بینفشری اور سیٹلر ہیں۔ اس موقع پر عدالت نے پوچھا کہ حسن نواز بینفشری بھی ہیں اور سیٹلر بھی ؟۔ جس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ یہ میرا کیس نہیں ، میں نے سیٹلمنٹ کو نہیں دیکھا۔
عدالت نے مزید استفار کیا کہ 2006 سے پہلے یہ فلیٹ کس کی ملکیت تھے ؟، قطری نے کب کہا کہ یہ فلیٹ اب آپ کی ملکیت ہیں؟۔ عدالت نے امجد پرویز سے کہا کہ سیٹلمنٹ کی درست تاریخ بتائیں ، کل آپ 2005 کہہ رہے تھے اور آج آپ 2006 کہہ رہے ہیں۔
دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہنوازشریف کیس سےمتعلق میرےخلاف سوشل میڈیاپرمنفی پروپیگنڈاشروع کیاگیا، غلط خبریں نشرکرناجرم ہے جس پر ایف آئی اے سے تفتیش شروع کرائی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ کہ ’’نیب کےوکیل کوپانی پلائیں‘‘۔
سماعت کے دوران پراسیکوٹر جنرل سردار سردار مظفر عباسی ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ پیپر بک اور کیس کی کاپی دیر سے ملنے پر سماعت ملتوی کر دیں، جس پر خواجہ حارث نے درمیان میں دخل دیتے ہوئے کہا کہ میں نیب کو پیپر بک وغیرہ دے دیے تھے۔
سردار مظفر عباسی نے نے موقف اختیار کی کہ کل ایک بجے خواجہ حارث نے مجھے فون کیا، میں اس وقت شہر سے باہر تھا، آج سماعت سے پہلے مجھے دستاویزات فراہم کیے گئے ہیں، اس لیے عدالت انہیں پڑھنے کے لیے مجھے وقت دے۔ مظفر عباسی کی درخواست پر سماعت آئندہ روز صبح 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔