تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

کیفی اعظمی کیسے والد تھے؟ شبانہ اعظمی کی محبت سے لبریز کہانی

اداکارہ شبانہ اعظمی کا کہنا ہے کہ انکے والد کیفی اعظمی ان کے لیے ایک اسپیشل انسان تھے جن سے انہیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ ملا

شبانہ اعظمی بالی ووڈ کی ایسی اداکارہ ہیں جنہیں اداکاری میں ایک خاص مقام حاصل ہے تو ان کے والد کیفی اعظمی بھی برصغیر کے نامور شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری میں نہ صرف عشق ومحبت کو اپنا موضوع بنایا بلکہ سماجی تفریق کے خلاف انقلابی نظمیں بھی کہیں۔

تم جو اتنا مسکرا رہے ہو، آج سوچا تو آنسو بھر آئے، گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو جیسے شہرہ آفاق کلام کے خالق کیفی اعظمی  اپنی بیٹی شبانہ اعظمی کے لیے ایک عام باپ نہیں تھے بلکہ یہ ایک استاد شاگرد جیسی نوعیت کا خاص رشتہ تھا جس سے شبانہ کو دنیا کو سمجھنے اور پرکھنے میں مدد ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے والد میرے ہیرو تھے جو عام والد کی طرح نہیں بلکہ اسپیشل تھے جن سے انہیں دنیا کو سمجھنے میں مدد ملی، وہ حقوق نسواں کے سچے علمبردار تھے، والد سے ہی انہیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا درس ملا۔

انٹرویو میں شبانہ نے اپنے والدین کے مابین تعلق کے بارے میں بھی کھل کر بتایا، ان کا کہنا تھا کہ عشق میں چاند تاروں کو توڑ لانے جیسے وعدے عام ہیں لیکن ان کے والدین شوکت اعظمی اور کیفی اعظمی کا رشتہ ان وعدوں سے بھی بڑھ کر تھا، والدہ بے حد رومانٹک تھیں اور انہیں والد کیفی اعظمی نے اپنی نظم سے راغب کیا تھا، ان کے مابین محبت وخلوص کا اثر میری زندگی پر بھی پڑا اور آج 37 سالوں کے بعد بھی میں اپنے شوہر جاوید اختر سے اتنا ہی پیار کرتی ہوں جتنا شادی کے وقت کرتی تھی۔

شبانہ نے اپنے والد کے آخری ایام کے حوالے سے بتایا کہ کیفی اعظمی نے اپنے آخری دن اپنے آبائی گاؤں ‘‘میزوان’’ میں گزارے اور ہنستے مسکراتے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

اپنے والدی کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے شبانہ اعظمی نے کہا کہ ان کی شاعری میں جو بات مجھے اچھی لگتی تھی وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں کبھی اقدار سے سمجھوتہ نہیں کیا، اپنی انقلابی نظموں میں بھی انہوں نے شدت اور جوش کو برقرار رکھا، یہاں تک کہ ‘‘وقت نے کیا کیا حسین ستم’’ اور ‘‘کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے’’ جیسے گیتوں میں بھی الفاظ کی سادگی، جذبات کی شدت اور تڑپ تھی، جو نمایاں دکھائی دی۔

انہوں نے بتایا کہ میں اپنے والد کو ڈیڈی کے بجائے ہمیشہ ابا ہی کہتی تھے، ابا ہمیشہ سے دوسروں سے الگ ہی تھے، وہ دیگر بچوں کے والد کی طرح دفتر یا کسی کام پر نہیں جاتے تھے اور نہ ہی عموماْ ٹراوزر یا شرٹ پہنتے تھے، میں نے انہیں 24 گھنٹے کاٹن کے کرتا پاجامے میں ہی ملبوس دیکھا، ان کی انگلش ہمیشہ سے ہی خراب تھی۔

شبانہ اعظمی نے اپنے انٹرویو میں یہ دلچسپ بات بھی بتائی کے وہ اسکول میں اپنی سہیلیوں سے والد کے بارے میں جھوٹ بھی بولتی تھی، ان کا کہنا تھا کہ میرے والد ایک شاعر تھے لیکن زمین پر شاعر کا مطلب کسی کے لیے ایک تمغہ جو کوئی کام نہ کرتا ہو اس لیے میں اپنی اسکول کی دوستوں سے اپنے والد کا تعارف ایک بزنس مین کے طور پر کرایا ہوا تھا،

پھر ایسا ہوا کہ ابا فلموں کے لیے لکھنے لگے اور میری ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اس کے والد نے میرے ابا کا نام کسی اخبار میں پڑھا تھا، چالیس طلبہ کی کلاس میں میں اکیلی تھی جس کے والد کا نام اخبار میں شائع ہوا تھااس دن مجھے احساس ہوا کہ میرے ابا اسپیشل ہیں۔

شبانہ اعظمی نے اپنے والدین سے متعلق انمول جذبات کا اظہار ایک غیر ملکی ویب سائٹ‌ ای ٹائمز کو انٹرویو میں‌کیا۔

Comments

- Advertisement -