جنیوا: وزیر مملکت برائے سرحدی امور (سیفران) شہریار آفری کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان مہاجرین کی مدد کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے، دنیا سے کچھ نہیں مانگا صرف خدمات کا اعتراف چاہتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جنیوا میں پاکستان، ایران، افغانستان اور اقوام متحدہ کے نمائندے پر مشتمل کیو فور اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں افغان مہاجرین کی رضا کارانہ واپسی کے فریم ورک کی 3 نکاتی پالیسی پر اتفاق کیا گیا۔
اجلاس میں فریقین نے عالمی برادری سے مہاجرین اور میزبان ممالک کے لیے نئے پراجیکٹس کا مطالبہ کیا۔ کیو فور گروپ نے مہاجرین کی رضا کارانہ واپسی میں درپیش مسائل کی نشاندہی کی اور ان کے تدارک پر زور دیا۔
اجلاس میں دسمبر میں گلوبل رفیوجی فورم میں افغان مہاجرین کی امداد کا معاملہ اٹھانے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا گیا کہ افغان مہاجرین کی میزبانی میں مسائل کے حل کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔ شرکا نے افغان مہاجرین کی رضا کارانہ واپسی کو جلد ممکن بنانے پر بھی اتفاق کیا۔
وزیر مملکت برائے سرحدی امور (سیفران) شہریار آفریدی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغان مہاجرین کی مدد کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے، دنیا سے کچھ نہیں مانگا صرف خدمات کا اعتراف چاہتے ہیں۔
شہریار آفریدی نے کہا کہ افغان مہاجرین کو پاکستان میں ہر سہولت فراہم کی جارہی ہے، مہاجرین کو سوشل سروس، تعلیم، صحت اور دیگر سہولتیں میسر ہیں۔ افغان مہاجرین کو بینک اکاؤنٹس کھولنے کی سہولت بھی دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چاہتے ہیں دنیا مہاجرین کا بوجھ اٹھانے میں کردار ادا کرے، دنیا امن کے لیے پاکستان کی بے مثال قربانیوں کو تسلیم کرے۔ ترقی یافتہ ممالک مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے کردار ادا کریں۔
خیال رہے کہ وزیر مملکت شہریار آفریدی جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہیں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ آج 26 ملین مہاجرین دنیا کے لیے باعث پریشانی ہیں، پاکستان نے عالمی تنازعات کے حل کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ پاکستان نے 40 لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دے کر تاریخ رقم کی۔
انہوں نے کہا کہ مہاجرین کے مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے مل کر کوشش کرنا ہوگی، عالمی برادری کو جنگوں کے خلاف برسر پیکار ہونا ہوگا۔ 85 فیصد مہاجرین کو ترقی پذیر ممالک سپورٹ کر رہے ہیں، ترقی یافتہ اقوام کی مہاجرین کی امداد میں شمولیت ضروری ہے۔