بنگلہ دیش کی مستعفی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد جو گزشتہ روز ملک سے فرار ہوکر بھارت جا پہنچی ہیں وہ ملک کی طاقتور مگر جابر سیاسی رہنما رہیں۔
شیخ حسینہ واجد جن کی پیدائش 1947 میں مشرقی بنگال میں ہوئی۔ وہ پاکستان کو دو لخت کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے والے شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی ہیں اور سیاست ان کے خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ حسینہ واجد نے خود کو ڈھاکا یونیورسٹی میں ایک طلبہ رہنما کے طور پر منوایا۔ جب 1975 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے متعدد اراکین کو قتل کر دیا گیا تھا تو اس حملے میں صرف شیخ حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن ہی بچ پائے تھے کیونکہ وہ اس وقت ملک میں نہیں تھیں۔
اس دوران انہوں نے بھارت میں جلا وطنی کاٹی اور 1981 میں واپس بنگلہ دیش لوٹیں جہاں اپنے والد کی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ مقرر ہوئیں۔
شیخ حسینہ واجد نے جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی حکومت کے دوران دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کیے اور اس تحریک کے نتیجے میں وہ ایک قومی رہنما بن کر ابھریں۔ انہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک بنگلہ دیش پر حکومت کی۔
سربراہ عوامی لیگ 1996 میں پہلی بار بنگلہ دیش کی وزیراعظم بنیں اور اپنے اس اقتدار کے دوران انہوں نے بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کی ڈیل طے کی، اس کے علاوہ ملک کے جنوبی مشرقی علاقوں میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ امن معاہدے کیے۔
تاہم اس کے ساتھ ساتھ حسینہ واجد کی حکومت پر نہ صرف کرپشن کے الزامات لگتے رہے بلکہ وہ انڈیا سے زیادہ قربت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنتی رہیں۔
سال 2001 میں وہ اپنی سابق اتحادی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما بیگم خالدہ ضیا سے الیکشن میں شکست کھا گئیں اور انہیں وزیرِ اعظم کا منصب چھوڑنا پڑا۔
بنگلہ دیش کی سیاست پر یہ دونوں خواتین تقریباً پچھلی تین دہائیوں سے چھائی رہیں اور انھیں ملک میں ’جنگجو بیگمات‘ کے نام سے پُکارا جانے لگا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان دو رہنماؤں کی لڑائی کے سبب نہ صرف ملک میں بم دھماکے ہوئے بلکہ لوگ لاپتہ اور ان کا ماورائے عدالت قتل ہونا معمول بن گیا تھا۔
سنہ 2009 میں ایک عبوری حکومت نے ملک میں انتخابات کروائے اور شیخ حسینہ ایک بار پھر ملک کی وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔
ملک میں حالیہ پُرتشدد مظاہرے شاید شیخ حسینہ کے سیاسی کریئر کا سب سے بڑا چیلنج تھے اور اس سے قبل ملک میں ہونے والے انتخابات بھی تنازعات کا شکار ہوئے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی جماعت لگاتار چوتھی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔
اپنے سیاسی سفر کے دوران بطور اپوزیشن رہنما شیخ حسینہ متعدد مرتبہ گرفتار ہوئیں اور ان پر حملے بھی ہوئے۔ سنہ 2004 میں ایک ایسے ہی حملے کے سبب ان کی قوتِ گویائی متاثر ہوئی تھی۔ کئی مرتبہ انھیں ملک بدر کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔
شیخ حسینہ نے تقریباً دو دہائیوں تک بنگلہ دیش پر حکومت کی اور وہ ملک میں سب سے طویل دورانیے کے لیے وزیراعظم رہنے والی سیاسی رہنما ہیں۔ ان کو اکثر بنگلہ دیش کی معیشت کو ترقی دینے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ان پر آمرانہ طرز حکمرانی اختیار کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی اصل وجہ شیخ حسینہ کی حکومت کی بدانتظامی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں ملک کی معاشی کامیابیوں کا فائدہ صرف انھیں ہی ہوا ہے جو عوامی لیگ کا حصہ تھے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دوران ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں اور جمہوریت کا معیار گرتا گیا۔ وہ شیخ حسینہ پر آمرانہ طرزِ حکمرانی اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا پر پابندیاں عائد کیں۔
حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سینیئر رہنماؤں اور ہزاروں سیاسی کارکنان کو حکومت مخالف مظاہروں کے درمیان گرفتار کیا گیا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سنہ 2009 کے بعد ملک میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا۔
شیخ حسینہ کی حکومت ان الزامات کی دوٹاک انداز میں تردید کر چکی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت غیر ملکی صحافیوں کو بھی ملک میں ان واقعات کی تحقیقات سے روکتی رہی۔
76 سالہ شیخ حسینہ واجد کا آمرانہ رویہ ہی عوامی غصے اور پھر ان کی اقتدار سے محرومی کا باعث بنا۔ وہ بنگلہ دیش سے فرار ہوکر اپنے حلیف ملک بھارت فرار ہوچکی ہیں۔