شیخ سعدی سے منسوب صدیوں پرانی یہ حکایت اور ایسے سبق آموز واقعات آج بھی ایک بہترین معاشرے اور خوب صورت سماج کی تشکیل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
یہ حکایت عدم برداشت کے اس دور میں خاص طور پر بااختیار افراد کو غور و فکر پر آمادہ کرتی ہے۔
یہ ان چند نیک اور قابل لوگوں کا تذکرہ ہے جو میرے رفیق بھی تھے۔ ان کا ظاہر اور باطن ایک تھا۔ ان کی اسی خوبی کی وجہ سے ایک امیر نے ان کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ یوں وہ روزی کمانے کی فکر اور اس حوالے سے جھگڑوں سے بچے ہوئے تھے۔
ان کے شب و روز کسی محتاجی، تنگی کے بغیر نہایت عزت اور وقار سے گزر رہے تھے۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ ان میں سے ایک سے کچھ لغزش ہوئی اور وہ امیر ان سے بد ظن ہو گیا۔ اسے ان سبھی کے نیک اور شریف ہونے پر شبہہ ہوا اور اس نے ان کا وظیفہ بند کر دیا۔
شیخ سعدی بیان کرتے ہیں کہ جب مجھے یہ معلوم ہوا تو میں نے امیر کے آگے اپنے ان رفقا کی صفائی پیش کرنے کا ارادہ کیا اور اس غرض سے ایک روز امیر کے درِ دولت پر پہنچا۔ اس کا دربان مجھے نہیں جانتا تھا، سو دروازے ہی سے لوٹنا پڑا۔ حسنِ اتفاق تھا کہ وہاں ایک شخص نے مجھے پہچان لیا اور یوں امیر تک رسائی ممکن ہوئی۔ امیر نے مجھے دیکھا تو خوشی کا اظہار کیا اور مسند پر خاص جگہ بیٹھنے کو کہا، لیکن میں عام صف میں بیٹھ گیا اور اس کی عنایتوں کا شکریہ ادا کر کے اپنے دوستوں کی بات چھیڑی۔
اس گفتگو میں جب میں نے یہ کہا کہ اللہ پاک ہی رزق دینے والا ہے، وہ اپنے نافرمان بندوں کا رزق بھی بند نہیں کرتا، تو اس پر یہ بات اثر کر گئی۔ امیر کا دل پسیج گیا اور اس نے نہ صرف ان کا وظیفہ جاری کر دیا بلکہ پچھلے جتنے دنوں کا وظیفہ نہیں ملا تھا وہ بھی ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ میں نے اس عالی ظرف کی بخشش کا شکریہ ادا کیا اور لوٹ آیا۔
اس حکایت کا حاصل یہ ہے کہ امرا کو اپنے مرتبے اور منصب کا ہر حالت میں لحاظ کرنا چاہیے۔ ان کو معمولی باتیں نظر انداز کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی لگن ہونی چاہیے۔ معاشرے کے مستحق لوگوں کی امداد اس سے مشروط نہ ہو کہ امداد لینے والا شخص کامل ہو۔ انسان سے کبھی بھی، کسی قسم کی خطا، کوتاہی ہو سکتی ہے۔ تب غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے نافرمان بندوں کو برابر روزی پہنچاتا ہے اور جو ان کے مقدر میں لکھا ہو اس میں کوئی کمی نہیں کرتا۔