یہ واقعہ میری طویل شکاری زندگی کے اُن عجیب اور لرزہ خیز واقعات میں سے ہے جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس واقعے کی صحیح پوزیشن سمجھنے کے لیے آپ کو آندھرا پردیش کے جنگلوں میں جانا پڑے گا۔
ضلع چتّوڑ میں بھاکر پت، چمالا اور مامندر کے تینوں جنگل قریب قریب واقع ہیں۔ ان کے کناروں پر بہت سے گاؤں اور بستیاں آباد ہیں۔ یہ جنگل اپنے قدرتی مناظر کے اعتبار سے جتنے حسین ہیں، اس سے کہیں زیادہ خطرناک بھی ہیں۔ درندوں کے علاوہ یہاں ریچھ بھی پائے جاتے ہیں۔
ایک روز ہمارے چیتے کا پالتو بچّہ اچانک مَر گیا۔ میری بیوی نے اُسے بڑے شوق سے پالا تھا۔ بچّے کی موت سے میری بیوی کو سخت صدمہ پہنچا، لیکن میں نے کہا، فکر نہ کرو۔ ایک دو روز تک جنگل سے دوسرا بچّہ پکڑ لاؤں گا۔ چنانچہ آندھرا پردیش کے گنجان اور سیکڑوں میل میں پھیلے ہوئے جنگلوں میں میرے آنے کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس موسم میں مادہ اکثر بچّے دیتی ہے، اس لیے میرا خیال تھا کہ معمولی سی تلاش کے بعد کوئی بچّہ پکڑنے میں کام یاب ہو جاؤں گا اور بندوق چلائے بغیر یہاں سے چل دوں گا، لیکن کئی دن گزر گئے، بیس بیس میل جنگل میں پھرنے کے باوجود گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔
ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ رنگام پت کا ایک شخص تھانڈا جو گزشتہ دو ہفتوں سے غائب تھا، اس کی ہڈیاں مِل گئی ہیں۔ یہ شخص اردگرد کے دیہات میں جنگلی بوٹیاں بیچتا اور جادو ٹونا بھی کرتا تھا۔ اس کے غائب ہونے سے بھوت پریت کے قائل دیہاتیوں نے قیاس کیا کہ تھانڈا کو کسی بھوت نے مار ڈالا ہے۔ تھانڈا کا تھیلا اور سامان فارسٹ گارڈوں نے ایک پہاڑی چشمے کے عقب میں پڑا پایا تھا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اس کی ہڈّیاں اور گلا سڑا گوشت بھی مَل گیا۔ پولیس کی رسمی تفتیش کے بعد یہ معاملہ ختم ہو گیا۔
میں اسی وقت سمجھ گیا کہ ان آبادیوں پر بَلا نازل ہوا ہی چاہتی ہے، کوئی آدم خور درندہ اِدھر آ نکلا ہے۔ اگلے ہی روز سہ پہر کے وقت پولی بونو کے مقام پر ایک عجیب حادثہ پیش آیا۔ پولی بونو گاؤں، رنگام پت سے کوئی سات میل دُور تھا۔ جنگل میں سات بیل گاڑیاں گزر رہی تھیں، جب وہ نرشیا کے قریب پہنچیں، جہاں سڑک سے کوئی دو فرلانگ ہٹ کر ایک قدرتی تالاب تھا، تو گاڑی بانوں نے تالاب میں نہانے کا پروگرام بنایا۔ تھوڑی دیر بعد نہانے کے بعد وہ تالاب سے باہر نکلے، لیکن جب وہ گاڑیوں پر بیٹھے، تو دفعتاً انہیں احساس ہوا کہ ان کا ایک ساتھی غائب اور تعداد میں سات کے بجائے وہ چھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے سوچا شاید پُتّو رفع حاجت کے لیے کہیں رُک گیا ہے، وہ دیر تک انتظار کرتے رہے۔ لیکن وہ نہ پلٹا، تو انہیں سخت تشویش ہوئی۔ وہ دوبارہ گاڑیوں سے اُترے اور اِدھر اُدھر پھیل کر اپنے ساتھی کو آوازیں دینے لگے۔ کوئی جواب نہ ملا۔ تالاب پر دوبارہ جانے کی ہمّت کسی میں نہ تھی۔
وہ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ پُتّو کو کسی بَدروح نے پکڑ لیا ہوگا، ناگ دیوتا نے ڈس لیا ہے اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ اسے کسی شیر یا چیتے یا ریچھ ہی نے مار ڈالا ہو۔ مایوس ہو کر انہوں نے پُتّو کی بیل گاڑی وہیں چھوڑی اور اپنی اپنی گاڑیاں تیز دوڑاتے ہوئے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔
پُتّو کے بیل اپنے مالک کی راہ تکتے رہے۔ آدھی رات کو جب اوس پڑنے لگی، تو بیل سردی سے کانپنے لگے اور اپنے مالک کا خیال چھوڑ کر وہ بھی گاؤں کی طرف چل پڑے۔ اور صبح چار بجے وہ پُتّو کے گھر تک پہنچ گئے۔
اس روز گاؤں والے دن بھر جنگل میں پھر کر پُتّو کی تلاش کرتے رہے۔ مگر بے سود۔ پُتّو کی پراسرار گم شدگی پر قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ دو دن بعد پھر ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔ اس مرتبہ گاؤں کا ایک بنیا غائب ہوا، وہ رنگام پت سے تیرہ میل دُور ایک دوسرے گاؤں میں اناج اور ضرورت کا دوسرا سامان لے کر جا رہا تھا۔ اس نے سامان گدھوں لاد رکھا تھا۔ پولی بونو کے مقام پر اس نے کھانا کھایا اور آگے چل پڑا۔ ساتویں میل پر جنگل میں بانس کاٹنے والے ایک لکڑہارے نے اسے کنوئیں میں سے پانی نکال کر پلایا، اس کے بعد بنیے کو دوبارہ کسی نے نہ دیکھا۔ اس کے گدھے جنگل میں بھٹکتے ہوئے پائے گئے۔ سامان بدستور ان کی پشت پر لدا ہوا تھا۔
چوتھے روز پولی بونو کا وہ لکڑ ہارا بھی غائب ہو گیا جس نے بنیے کو پانی پلایا تھا۔ تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ البتّہ ایک درخت کے قریب اس کی کلہاڑی اور سفید پگڑی پڑی مل گئی۔
اس قسم کے پُراسرار واقعات پے درپے رونما ہوئے۔ تو بھاکر پت،چمالا اور مامندر کی آبادیوں میں سنسنی پھیل گئی اور لوگ اعلانیہ کہنے لگے کہ یہ کسی درندے کا کام نہیں، بلکہ کوئی بھوت ہے جو انسانوں کی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ درندہ اگر ایسی حرکت کرتا، تو اس کے پنجوں کے نشان، خون کے دھبّے یا کھائی ہوئی لاش کے کچھ حصّے تو ملتے۔ مگر ان میں سے کوئی نشان نہ پایا گیا۔ لوگوں نے گاؤں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اکیلا دُکیلا آدمی تو جنگل کا رُخ کرنے کی جرأت ہی نہ کرتا تھا۔
یہ صورتِ حال محکمۂ جنگلات کے لیے بڑی نازک تھی۔ افسروں نے پولیس کو خبردار کیا، پولیس کے کچھ آدمی آئے، انہوں نے بھی جنگل کا کونا کونا چھان مارا، مگر معمولی سا سراغ بھی نہ مِل سکا۔ بستیوں کے وہ لوگ جن کا گزارہ ہی جادو ٹونے پر تھا، بے چارے دیہاتیوں کو مسلسل ڈرا رہے تھے کہ اگر اتنا روپیہ دان نہ کیا گیا، اتنی بکریوں کا بلیدان نہ کیا گیا، اتنی شراب نہ پیش کی گئی، تو یہ نادیدہ بلا ایک ایک کر کے سب کو ہڑپ کر جائے گی۔ ایک جادُوگر نے تو یہاں تک کہا کہ گاؤں والے کسی بچّے کی قربانی دے دیں تو یہ بلا ٹل جائے گی۔ میں نے پولیس کے دفعدار سے کہا کہ اس منحوس جادوگر کو حوالات میں بند کیا جائے اور اگر گاؤں کا کوئی بچّہ گم ہو، تو کرشناپا (جادوگر) کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے، لیکن پولیس نے میرے مشورے پر عمل نہ کیا۔ آخر جس بات کا مجھے کھٹکا تھا، وہ ہو کر رہی، چند روز بعد چندرا گری کے مقام پر نو سال کا ایک اچھوت لڑکا گُم ہو گیا۔
بچّے کی گمشدگی پر ماں دیوانی ہو گئی اور اسے کئی روز تک تلاش کرتی پھری۔ آخر یہ معاملہ پولیس کے علم میں لایا گیا۔ سب انسپکٹر نے سب سے پہلے کرشناپا جادوگر کے مکان کی تلاشی لی، لیکن پوری چھان بین کرنے کے باوجود لڑکے کا کوئی پتا نشان نہ ملا۔ پولیس انسپکٹر کو کرشناپا پر بہرحال شک تھا، اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ واردات میں اس بدمعاش کا ضرور ہاتھ ہے۔ چنانچہ وہ اسے ہتھکڑی لگا کر چوکی پر لے گیا، مگر جادوگر نے کچھ نہ اگلا۔ مایوس ہو کر کرشناپا کو چھوڑ دیا، لیکن اس تاکید کے ساتھ کہ وہ پولیس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہیں جائے گا۔ کرشناپا جادوگر نے چوکی سے نکلتے ہوئے پولیس انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:
‘لومڑی خواہ کتنی چالاک ہو، مگر گیدڑ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔’ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور انسپکٹر کئی دن تک سوچتا رہا کہ ان الفاظ کا آخر مطلب کیا ہے۔
اگلے روز رنگام پت اور پولی بونو کے درمیانی علاقے کی رہنے والی ایک عورت غائب ہو گئی۔ اس کا خاوند صبح سویرے مویشیوں کو چرانے جنگل میں گیا۔ دوپہر کو اس عورت نے خاوند کے لیے روٹی تیار کی اور ایک برساتی نالے کے کنارے کنارے چلتی ہوئی پیپل کے ایک درخت تک جا پہنچی۔ پیپل کے بڑے درخت سے آدھ میل دُور مٹّی کے برتن ٹوٹے پائے گئے جن میں وہ روٹی لے کر گئی تھی، لیکن خود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔
میں ان دنوں اپنے ایک ہندو دوست ویوا کے ساتھ ناگا پٹلا کے فارسٹ بنگلے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ان تمام واقعات کی اطلاع مجھے بنگلے کے چوکیدار سے ملتی رہتی تھی۔ ایک رات چوکیدار ہمارے پاس بیٹھا حسبِ معمول گاؤں والوں کے قصّے بیان کرتا رہا تھا کہ دریا کی طرف سے چیتے کے گرجنے کی آواز سنائی دی۔
‘صاحب، یہ چیتا بول رہا ہے۔’ چوکیدار نے سہم کر کہا۔ ‘ہاں ہمیں معلوم ہے۔ خاموش رہو۔’ ریوا نے اسے ڈانٹ دیا: ‘جاؤ، اپنی کوٹھڑی میں…’
چوکیدار کے جانے کے بعد میں نے دیوا سے کہا: ‘چیتے کی آواز سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت سخت بھوکا ہے اور کسی شکار کی تلاش میں گھوم رہا ہے۔’ دیوا کے چہرے پر دہشت کی علامات نمودار ہوئیں۔ اس نے بنگلے کی چار دیواری کا جائزہ لیا اور بولا: چیتا ان دیواروں کو آسانی سے پھلانگ کر اندر آ سکتا ہے، ہمیں آج اندر کمرے میں سونا چاہیے۔’
ہمارے بستر اندرونی کمرے میں بچھا دیے گئے۔ چیتا معمولی معمولی وقفوں کے بعد آدھی رات تک بولتا رہا۔ کمرے کے اندر حبس بہت تھا اور چوہے مسلسل پریشان کر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک موٹا سا چوہا چند لمحے تک چُوں چُوں کرنے کے بعد یکایک خاموش ہو گیا۔ چوہے کی آواز میں ایسا کرب تھا کہ دیوا کہنے لگا:
‘یہ چوہا اس طرح کیوں چیخ رہا تھا؟’
شاید کسی سانپ نے اُسے منہ میں دبوچ لیا ہے۔’ میں نے جواب میں کہا۔ دیوا سانپ سے بے حد ڈرتا تھا، وہ فوراً بستر سے اُٹھا: میں تو برآمدے میں جاتا ہوں۔ اَب مجھ سے یہاں سویا نہیں جائے گا۔’
پَو پھٹنے سے کچھ دیر پہلے دفعتاً میری آنکھ کھلی۔ میری چھٹی حِس کسی انجانے خطرے کا اعلان کر رہی تھی۔ میں نے جلدی سے سرہانے رکھی ہوئی ٹارچ روشن کی اور رائفل اٹھا لی۔ دیوا بے خبر سو رہا تھا۔ معاً ایسی آواز آئی جیسے کوئی شخص دیوار کھرچ رہا ہے۔ میں نے روشنی اِدھر اُدھر پھینکی تو آواز یک لخت بند ہو گئی۔ میں دبے پاؤں اٹھا اور رائفل سنبھال کر برآمدے سے باہر آیا۔ ٹارچ بجھا دی اور ایک ستون کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا۔
چند منٹ بعد پھر دیوار کھرچنے کی آواز کان میں آئی۔ یہ اتنی واضح اور صاف تھی کہ کوئی شبہ نہ رہا۔ کوئی جانور اپنے پنجے دیوار پر تیز کر رہا تھا۔ میں پنجوں کے بَل چلتا ہوا آواز کی بڑھا۔ ابھی چند قدم ہی چلا ہوں گا کہ پیچھے سے دیوا کے کھانسنے کی آواز آئی اور پھر فوراً ہی چیتے کی غرّاہٹ فضا میں بلند ہوئی اور وہ دوڑتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔
صبح ہم نے اس کے پنجوں کے گہرے نشان دیوار کے آس پاس دیکھے۔ ناشتے کے بعد میں نے دیوا کو ساتھ لیا اور جنگل میں ٹہلنے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم پیپل کے اس درخت کے نیچے کھڑے تھے جہاں چند روز پہلے وہ عورت غائب ہوئی تھی جو اپنے شوہر کو روٹی دینے جا رہی تھی۔ چیتے کے پنجوں کے نشان دریائے کلیانی کے بائیں کنارے پر دور تک پھیلے ہوئے تھے۔
ان نشانوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ چیتا غیر معمولی طور پر قوی ہیکل اور بڑی جسامت کا ہے، لیکن مجھے جن نشانوں کی تلاش تھی، وہ کہیں نہ تھے۔ میں شیر کی تلاش میں تھا اور یہ کتنی حیرت کی بات تھی کہ جنگل کے تمام جانور پانی پینے دریا پر آتے تھے، مگر شیر اِدھر کا رخ نہ کرتا تھا۔
بھوت پریت کے وجود کو عقل تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی اور آدم خور اگر ایسی حرکتیں کرتا، تو اپنا نشان ضرور چھوڑ جاتا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ ہے کیا بَلا؟ تمام واقعات کا اچّھی طرح جائزہ لینے کے بعد جو حقائق میرے سامنے آئے وہ یہ تھے:
1۔ پانچوں افراد پُراسرار طور پر موت کا شکار ہوئے۔
2۔ ہر شخص دوپہر یا سہ پہر کے وقت غائب ہُوا۔
3۔ ان حادثوں کو کسی نے بچشمِ خود نہ دیکھا۔
4۔ غائب ہونے والا ہر فرد تنِ تنہا تھا۔
5۔ البتہ بنیے کے ساتھ اس کے گدھے بھی تھے جو بول نہیں سکتے، لیکن انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا، وہ اطمینان سے جنگل میں گھاس چرتے رہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ خوف زدہ نہ تھے، ورنہ ضرور اِدھر اُدھر منتشر ہو جاتے۔
اس مسئلے پر دیوا کے ساتھ میں دیر تک بحث کرتا رہا، لیکن کسی رُخ سے بھی اس معاملے کی تہ تک پہنچنا مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا تھا، تاہم مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہو، میں یہ راز بے نقاب کر کے رہوں گا۔
(چند روز جنگل میں گھومنے اور بالخصوص ان جگہوں پر جانے کے بعد جہاں سے اب تک ہلاک ہونے والے غائب ہوتے رہے تھے، ایک دن دیوا اور مصنّف سو کر اٹھے تو….) ایک شخص بنگلے پر آیا اور کہنے لگا کہ وہ پولی بونو سے آیا ہے۔ وہاں امبل میرو کے ایک پہاڑی ٹیلے پر بہت بڑا شیر دیکھا گیا ہے۔ جنگل میں کام کرنے والے مزدوروں نے ٹھیکیدار سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اس وقت تک کام پر نہ جائیں گے جب تک شیر کا قصّہ پاک نہیں ہو جاتا۔ ٹھیکیدار نے پیغام بھیجا تھا۔ ہم جلدی جلدی تیار ہو کر اس شخص کے ساتھ پولی بونو روانہ ہو گئے۔ ٹھیکیدار سے ملاقات ہوئی۔ کام رُک جانے سے اس کا ہزاروں روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ میں نے ٹھیکیدار کو دلاسا دیا، مزدوروں سے بات کی اور ان سے وعدہ کیا کہ شیر کو مارنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ سمجھانے بجھانے سے مزدور راضی ہوئے اور انہوں نے کام شروع کر دیا۔
اگلے روز دوپہر کے وقت مزدوروں کے انچارج نے سیٹی بجا کر روٹی کھانے کے وقفے کا اعلان کیا۔ وہ مزدور، جس نے ایک روز پہلے شیر کو دیکھا تھا، نہایت خوف زدہ اور بدحواس تھا، وہ بار بار اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر درخت پر کلہاڑی سے اُلٹے سیدھے ہاتھ مارنے لگتا۔ اس سے صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر کچّے بانسوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا۔ دفعتاً اس جھنڈ میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ مزدور نے فوراً اُدھر دیکھا اور پھر کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چُھوٹ گئی۔ کچّے بانسوں کے اس جھنڈ میں وہی شیر اپنی زرد زرد چمکدار بُھوکی آنکھوں سے مزدور کو گھور رہا تھا۔ اس نے وہیں سے جست کی اور عین مزدور کے اوپر جا پڑا، لیکن اس شخص کی زندگی کے کچھ دن ابھی باقی تھے۔ اس کے حلق سے ایک لرزہ خیز چیخ نکلی، فوراً ہی دوسرے مزدور چیختے چلّاتے اُدھر لپکے اور شیر گرجتا غرّاتا چشم زدن میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
بہرحال یہ راز اب کھل چکا تھا کہ امبل میرو کا بھوت کون ہے؟ اور کس نے پانچ افراد کو ہلاک کر کے غائب کیا ہے۔ اَب سوال یہ تھا کہ ہم کیا کریں؟
جب میں نے دیوا اور ساتھ آنے والے مزدوروں سے کہا کہ میں رات کو یہیں چُھپ کر آدم خور کا انتظار کروں گا، تو خوف سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔
وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔ میں نے گھڑی پر نگاہ کی، رات کے پورے بارہ بجے تھے۔ اَب میری آنکھیں تالاب اور جنگل کا منظر کچھ فاصلے تک بخوبی دیکھ سکتی تھیں۔ یکایک چرخ پھر نمودار ہوا۔ اس مرتبہ وہ چیخے چلّائے بغیر نہایت مضطرب ہو کر چکّر کاٹ رہا تھا۔ جب چوتھی مرتبہ چرخ تالاب کے نزدیک گیا تو دوسرے کنارے سے اچانک شیر غرایا۔ شیر دوبارہ ہلکی آواز میں غُرّایا اور پھر اس کی آواز سنائی نہ دی۔
معاً میری چھٹی حِس بیدار ہوئی اور اس نے خطرے کا اعلان کیا۔ میں نے بھری ہوئی رائفل کے ٹریگر پر انگلی رکھ دی اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اپنے دائیں جانب گھنی جھاڑیوں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ کی آواز سن لی تھی اور اب میں بے حس و حرکت اپنی جگہ بیٹھا آنکھیں گھما کر اُدھر ہی دیکھ رہا تھا۔ میں نے نگاہوں ہی نگاہوں میں جھاڑیوں کا فاصلہ ماپ لیا تھا۔ وہ مجھ سے تیس گز دور تھیں اور ان میں چھپا ہوا آدم خور نہایت مکّاری سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ اپنی فطرت کے مطابق مجھے بیخبری میں دبوچ لینا چاہتا تھا۔
اب وہ مجھ سے بیس گز دور تھا۔۔۔ پندرہ گز۔۔۔ بارہ گز۔۔۔ دس گز۔۔۔ یکایک اس نے اپنا سَر اٹھایا اور میں نے دیکھا کہ وہ شیرنی ہے۔ پھر جبڑا کھول کر وہ آہستہ سے غرّائی، میں نے اس کے چمکتے ہوئے لمبے دانت دیکھے اور اس سے پیشتر کہ وہ مجھ پر چھلانگ لگائے، میری گولی اس کا جبڑا توڑتی ہوئی گردن میں سے نکل گئی، لیکن کس بلا کی قوّت اس کے اندر کام کر رہی تھی۔ وہ زخمی ہونے کے باوجود اندھا دُھند میری طرف جھپٹی، لیکن مجھ سے صرف دو گز کے فاصلے پر آن کر گری اور پھر دہاڑتی گرجتی الٹے قدموں بھاگی۔ میں نے یکے بعد دیگرے تین فائر کیے۔ اس کی گردن سے ابلتا ہوا خون صاف غمازی کر رہا تھا کہ وہ کدھر گئی۔
مجھے اتنا یاد ہے میرے نشانے خالی نہیں گئے اور شیرنی آگے جا کر یقیناً گر گئی ہوگی۔ میں گرتا پڑتا اور جھاڑیوں میں سے لہولہان ہو کر اس درخت تک پہنچ گیا جہاں میرے ساتھی موجود تھے۔ چند لمحے آرام کرنے کے بعد ہم سب پھر قلعے کی طرف چلے اس مرتبہ میکٹوش آگے آگے تھا اور پیچھے گاؤں والے لالٹینیں لیے چل رہے تھے۔ ایک جگہ وہ اچانک رُکا اور پھر پیچھے ہٹ کر چند پتّھر اٹھائے اور جھاڑی کے اندر پھینکنے لگا۔ غالباً آدم خور شیرنی اس کے اندر چُھپی ہوئی تھی۔ پھر وہ رائفل تان کر آگے بڑھا اور میں نے ٹارچ روشن کی۔ اسی لمحے زخمی شیرنی نے کروٹ لی اور میکٹوش کے اوپر چھلانگ لگائی، لیکن چند فٹ کے فاصلے پر ہی آ کر گر پڑی اور جبڑا کھول کر غرّانے لگی۔ ہمارے ساتھی لالٹینیں پھینک کر بھاگ نکلے، لیکن اب ہمیں اس زخمی اور معذور شیرنی سے کوئی خطرہ نہ تھا، کیوں کہ وہ مرنے ہی والی تھی، مجھے حیرت تھی کہ تین گولیاں کھانے کے باوجود وہ اتنی دیر تک زندہ کیسے رہی۔ میکٹوش نے چند لمحے تک شیرنی کو غور سے دیکھا اور پھر اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔
اور اس طرح چیتل درُوگ، ہوس دُرگا اور ہوللکر میں تباہی مچانے والی آدم خور شیرنی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔
(مصنّف اور مہم جُو کینتھ اینڈرسن کی اس روداد کے مترجم مقبول جہانگیر ہیں)