تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

چڑیا کا گھونسلا اور ڈاکو

مصنف: رتن سنگھ

ڈاکوﺅں کے پتھر جیسے دل عام طور پر موم نہیں ہوا کرتے، لیکن وہ لمحہ معلوم نہیں کیسا لطیف تھا جس نے ظالم سنگھ جیسے ڈاکوﺅں کے سردار کا دل بھی پگھلا کر رکھ دیا۔

بات صرف اتنی سی تھی جو بچہ اغوا کرکے اس کے آدمی لائے تھے وہ کل سے رو رو کر بے حال ہو رہا تھا۔ ویسے یہ بھی کوئی نئی بات نہ تھی، شروع شروع میں سبھی اغوا ہونے والے بچے روتے ہیں، لیکن پھر رو دھو کر حالات سے سمجھوتا کرلیتے اور صبر کے ساتھ بہتر حالات کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

اس سے ڈاکوﺅں کو بھی اطمینان ہو جاتا ہے۔ وہ بھی صبر و ضبط سے معاوضہ ملنے کے منتظر رہتے ہیں۔

اس بچے کا معاملہ ذرا پریشان کن تھا، اسے آئے ہوئے چوبیس گھنٹے ہو رہے تھے۔ ان چوبیس گھنٹوں میں وہ ایک پَل نہیں سویا تھا۔ مزید ستم یہ کہ وہ رونا بند کرتا تو کسی زخمی پرندے کی طرح زمین پر لوٹنا شروع کردیتا۔ لوٹتے لوٹتے اس کے گھٹنے اور بازو چِھل گئے تھے، چہرے پر کتنی ہی خراشیں آگئی تھیں، عجیب ڈراﺅنا سا چہرہ ہوگیا تھا۔

چوبیس گھنٹے میں اس نے کھانا تو درکنار پانی کی ایک بوند بھی حلق سے نہیں اتاری تھی، اسی لیے اس کے ہونٹ سوکھ سے گئے تھے اور چہرہ مرجھا گیا تھا۔ اس قسم کی باتوں کا ڈاکوﺅں پر زیادہ اثر نہیں ہوا کرتا، بچہ روتا ہے تو روتا رہے۔ کیا لیتا ہے؟

ادھر ڈاکوﺅں کے جاسوس خبر لائے کہ بچے کی ماں پر بار بار غشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ اس کے منہ پر پانی چھڑک کر اسے ہوش میں لایا جاتا ہے تو وہ بچے کا نام لے کر پھر بے ہوش ہوجاتی ہے۔

اغوا ہونے والے بچے کے گھر میں اس قسم کی پریشانیاں عام طور پر ڈاکوﺅں کا کام آسان کردیتی ہیں۔ گھر والے مقررہ وقت پر منہ مانگی رقم لے کر بتائے پتے پر پہنچ جاتے ہیں، مگر اس مرتبہ اغوا کیے ہوئے بچے کا تڑپنا، بلکنا، مچلنا اور کھانے پینے سے گریز ڈاکوﺅں کے لیے خاصا پریشان کن مسئلہ بن گیا تھا۔

بچے کی پیدا کی ہوئی مصیبت کے ساتھ ہی ایک اور عجیب واقعہ بھی ہوگیا۔

ہُوا یہ کہ جس پیڑ کے نیچے بچہ سردار کے قدموں تلے پڑا لوٹ رہا تھا، اسی پیڑ کی کسی شاخ پر چڑیوں کا ایک گھونسلا تھا۔ اس گھونسلے میں کچھ دن سے چڑیوں کے ننھے ننھے بچے چُوں چُوں کیا کرتے تھے، شام کے وقت جب نر اور مادہ کے لوٹنے کا وقت ہوتا تو وہ ننھے ننھے بچے اپنے ماں باپ کو دیکھ کر ایسے نہال ہوجاتے کہ اور بھی زور زور سے چہچہانے لگتے۔

معلوم نہیں، ظالم سنگھ کا دھیان کیسے چڑیوں کے اس کنبے کی طرف چلا گیا۔

وہ روز شام کے وقت چڑیوں کو اپنے بچوں کو دانہ کھلاتے دیکھتا، ان کی محبت اور لگاﺅ کا یہ منظر اسے بڑا اچھا لگتا تھا۔

ایک دن ایک چیل کی نظر چڑیوں کے ننھے ننھے پوٹوں پر گئی اور وہ ان میں سے ایک کو اپنے پنجوں میں جھپٹ کر اڑا لے گئی۔

اس شام چڑیوں کے جوڑے کی پریشانی اور صدمے کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ جب انھوں نے اپنے گھونسلے میں صرف ایک ہی بچہ دیکھا تو رات گئے تک گھونسلے کے گرد چکر کاٹ کاٹ کر شور مچاتے رہے۔

چڑیوں کے جوڑے کی درد بھری چیخیں سُن سُن کر ڈاکوﺅں کے سردار کا دل بھر آیا۔ ساری رات وہ چین سے نہ سوسکا۔

صبح اٹھتے ہی اس نے ایک ڈاکو کی ڈیوٹی لگادی تھی کہ وہ بندوق لے کر اس درخت کا پہرہ دے اور کسی چیل کو اس گھونسلے کے پاس نہ پھٹکنے دے۔

اب اسے اتفاق کہیے جس وقت وہ اغوا کیا ہوا بچہ سردار کے سامنے پڑا ہوا مچل مچل کر بلک رہا تھا، اسی وقت چڑیا کا دوسرا بچہ اپنے گھونسلے سے پھسلا اور سردار کی گود میں آگرا۔

سردار کتنی دیر تک یہ ننھی سی جان ہاتھوں میں لے کر تکتا رہا۔ بچہ بار بار چونچ کھول رہا تھا اور بند کر رہا تھا۔ اپنی ہتھیلی پر چڑیا کے بچے کے جسم کی گرمی سردار کو بڑی راحت بخش محسوس ہو رہی تھی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ گرمی اس کے جسم میں سرسراتی ہوئی روح کی گہرائیوں تک پہنچ رہی ہے۔

اس وقت شام ہورہی تھی۔ پرندوں کے لوٹنے کا وقت قریب آرہا تھا۔ معلوم نہیں، سردار کے دل میں چڑیوں کے جوڑے کی پریشانی کا درد تھا یا اپنی روح کو تسکین دینے کا جذبہ، اس نے ایک نظر سہمے ہوئے چڑیا کے بچے کی طرف دیکھا اور پھر ایک جوان کو حکم دیا کہ وہ پیڑ پر چڑھ کر چڑیا کا بچہ گھونسلے میں پہنچا دے۔

جیسے ہی اس کا آدمی چڑیا کے بچے کو پیڑ پر رکھ کر نیچے اترا، اسی دَم چڑیوں کا جوڑا لوٹ آیا، بچے نے چہچہاتے ہوئے ان کا استقبال کیا تو سردار کو بڑی خوشی ہوئی۔

اسی لمحے اغوا کیا ہوا بچہ جو اب تک چڑیا کے بچے کو دیکھ کر بہلا ہوا تھا، زور زور سے چلّانے لگا۔

سردار نے گھونسلے سے نظریں ہٹا کر اس بچے کی طرف دیکھا جو زمین پر لوٹ لوٹ کر ہلکان ہو رہا تھا۔

اس کے دل میں ابھی جو نرمی چڑیا کے بچے کے لیے پیدا ہوئی تھی، کچھ اور زور پکڑ گئی، اس کا پتّھر جیسا دل کچھ اور پگھلا اور اس نے اپنے جوانوں کو مہم پر روانگی کا حکم دینے کے لیے اپنی مخصوص تالی بجائی۔

دیکھتے ہی دیکھتے دس گُھڑ سوار پوری طرح لیس گھوڑوں کی لگامیں تھامے اس کے سامنے حاضر ہوگئے، وہ سارے کے سارے تھوڑی دیر پہلے چڑیا کے بچے کو گھونسلے میں پہنچانے کا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے، اس لیے انھوں نے سوچا کہ سردار کا دل پسیج گیا ہے اور وہ یہ بچہ بھی ماں باپ کے پاس واپس چھوڑ آنے کا حکم دینے والا ہے۔

ایک اعتبار سے ان کا اندازہ ٹھیک ہی تھا، سردار کا دل واقعی نرم ہو رہا تھا اور اس کے چہرے پر بھی کسی سختی کے آثار نہیں تھے، ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ دونوں بازو پیچھے کی طرف باندھے تیز تیز قدموں سے ٹہل رہا تھا جیسے کوئی اہم فیصلہ کرنے والا ہو۔

پھر ایک دَم کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ کر وہ اپنے جوانوں کی طرف مڑا اور کہنے لگا:

مجھے اس بچے پر بڑا ترس آرہا ہے، میں نے بچے کو ماں سے جدا کرکے اچھا نہیں کیا، اس لیے فوراً جاﺅ اور اس کی ماں کو بھی اغوا کرکے لے آﺅ تاکہ ماں اور بچہ دونوں ایک ساتھ رہ سکیں اور سیٹھ کو یہ بتا دینا کہ اب معاوضے کی رقم ایک لاکھ کے بہ جائے سوا لاکھ ہوگی۔ دو جانوں کا معاوضہ کچھ تو زیادہ ہونا چاہیے۔

یہ حکم دے کر سردار بہت خوش تھا کہ آج اس نے دو نیک کام کیے۔

یہ کہانی "درد مند” کے عنوان سے مختلف ادبی رسائل میں شایع ہوچکی ہے

Comments

- Advertisement -