تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

ہرا چشمہ

مصنف: شرن مکڑ
گؤ دان کی اپیل سن کر ایک سیٹھ نے گائے خیرات کی۔ جس شخص کو خیرات کی گائے ملی، وہ شہر کی گندی سی بستی میں رہنے والا ایک غریب مزدور تھا۔ اس کی کون سی زمین تھی جہاں ہری ہری گھاس اگتی۔ بستی کے آس پاس ہریالی کا نام و نشان نہ تھا۔

خیرات میں اُسے گائے ملی تھی، گھاس نہیں۔ اس نے گائے کو کھلانے کے لیے سوکھی گھاس ڈالی۔ امیر کی گائے نے سوکھی گھاس دیکھ کر منہ پھیر لیا، وہ کسی حالت میں سوکھی گھاس کھانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ آدمی نے اس کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیر کے منت کی گائے ٹس سے مس نہ ہوئی۔

وہ دو دن سے بھوک ہڑتال پر ڈٹی ہوئی تھی۔ مزدور ڈر رہا تھا کہ گائے کو کچھ ہوگیا تو گائے کی موت کا گناہ اس کے سر ہوگا۔ وہ دل ہی دل میں خوف زدہ ہو رہا تھا۔

اسے اس طرح پریشان اور گائے کی منت سماجت کرتے دیکھ کر کسی نے اسے گائے کی آنکھوں پر ہرا چشمہ باندھنے کا مشورہ دیا۔ مزدور نے ایسا ہی کیا۔ ہری پٹی کی عینک بناکر اس نے گائے کی آنکھوں پر لگا دی۔ اب گائے کے سامنے سوکھی گھاس کی جگہ ہری گھاس تھی۔ وہ خوش ہوگئی۔

مزدور اب خوش تھا لیکن اس کا پڑھا لکھا بے روزگار بیٹا اداس تھا۔ مزدور نے اس سے اداسی کا سبب پوچھا، وہ روہانسا سا ہوکر بولا۔ ”بابو! مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم عوام بھی گائے ہیں۔ لوگ ہماری آنکھوں پر امیدوں کا ہرا چشمہ لگا کر ہم سے ووٹ لے جاتے ہیں اور ہم سوکھے کو ہریالی سمجھ لیتے ہیں۔“

Comments

- Advertisement -