معاشرے میں طبقات اور اس کی بنیاد پر دولت، مقام و مرتبہ، مادّی وسائل، سہولیات، مراعات، آسائشوں وغیرہ کی تقسیم میں ناانصافیاں، عدم توازن اور جانب داری کسی بھی قوم یا کم تر طبقے کو افراتفری، انتشار اور غم و غصّے کا شکار کردیتی ہے جس کی نشان دہی مختلف ادوار میں فلاسفہ، ماہرینِ عمرانیات اور دانش ور اپنی تقاریر اور تحاریر میں کرتے رہے ہیں۔
آج ہمارا معاشرہ بھی اسی امتیاز، تفریق، عدم توازن اور ناانصافی کی لپیٹ میں ہے جس نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ سبطِ حسن معروف ترقّی پسند ادیب، صحافی اور دانش وَر تھے جن کے ریاست اور عوام سے متعلق افکار اور نظریات کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت آج زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ اس موضوع پر ان کی ایک تحریر سے اقتباس پیش خدمت ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
بیگانگی یا مغائرت نفسیات کی پرانی اصطلاح ہے۔
اس سے مراد تشخصِ ذات کا زیاں ہے، یعنی حالاتِ زندگی سے پیدا ہونے والی وہ ذہنی کیفیت جس کی وجہ سے انسان دوسرے انسانوں سے اپنے معاشرتی ماحول کو حتّٰی کہ خود اپنی قوّت، محنت اور محنت کی پیداوار کو بیگانہ اور غیر سمجھنے لگتا ہے۔
شخصیت کی یہ توڑ پھوڑا اور بشریت کا یہ ضیاع معاشرے کے طبقات میں تقسیم ہونے کا نتیجہ ہے۔ جب تک طبقے وجود میں نہیں آئے تھے بلکہ قبیلوں کی نوعیت ایک بڑے گھرانے کی تھی، معاشرہ ایک سالم وحدت تھا۔ فرد کی شخصیت معاشرے کی اجتماعی شخصیت کا اٹوٹ انگ تھی اور اُس کا تخلیقی عمل معاشرے کے تخلیقی عمل کا ایک جُزو تھا۔ اُس سے پوری طرح ہم آہنگ۔
موجودہ سرمایہ داری نظام میں طبقاتی تفریق کے باعث بیگانگیٔ ذات کے عمل نے بڑی شدّت اختیار کر لی ہے اور معاشرہ میں بے یقینی، ناآسودگی اور ذہنی انشار وبا کی صورت میں پھیل رہا ہے۔