سپریم کورٹ نے ملک میں بیک وقت الیکشن کرانے کے کیس میں تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کر دیے اور کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے درخواست پر سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں وزارت دفاع کی جانب سے ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کرانے کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی اور اٹارنی جنرل سمیت وکلا کے دلائل سننے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک کے لیے ملتوی کردی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو زیادہ طول نہیں دیا جا سکتا۔ سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔ 5 دن عید کی چھٹیاں آگئی ہیں۔ میرے ساتھی ججز کہتے ہیں کہ پانچ دن کا وقت بہت ہے۔
اس موقع پر سرکاری شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کبھی ایک وجہ سے نافذ نہیں ہوسکا تو کبھی دوسری وجہ سے۔ لوگ کنفیوژ اور ٹینشن میں ہیں، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ضروری ہے۔ عوام کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے درخواست دائر کی ہے، انتخابات الگ الگ ہوئے تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ صوبوں میں منتخب حکومتیں الیکشن پر اثر انداز ہوں گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب بحث ہو رہی تھی تو اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟ اٹارنی جنرل کو نہ جانے کس نے تین چار پر زور دینے کا کہا۔ ان سے پوچھیں گے کہ کس نے ان کو یہ موقف اپنانے سے روکا؟
شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی متفق ہو جائیں تو آئیڈیل حالات ہوں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جا سکتی۔ یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا۔ آئین کے مطابق 90 دن میں انتخابات کرانا لازم ہیں اور 14 اپریل کو یہ مدت گزر چکی ہے۔ نگران حکومت 90 دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق یہ سیاسی انصاف کا معاملہ ہے۔ جس میں فیصلے عوام کرے گی۔ آپ کی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں۔ اس سے قبل عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا آج پہلی بار حکومت نے مثبت بات کی ہے۔ عدالت ایک دن انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کر دیتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ تاریخ پر جماعتیں مطمئن ہوئیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا۔ قوم کی تکلیف اور اضطراب کاعالم دیکھیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے استدعا کی کہ عدالت سیاسی جماعتوں کو مہلت دے جب کہ عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کو روسٹرم پر بلالیا اور چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہے جس پر فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق زمان پارک آئے اگلے دن ہی ہمارا سندھ کا صدر گرفتار ہوگیا۔ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے آپ سے بہت امید ہے۔
اس سے قبل سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو وزارت خزانہ کی رپورٹ پڑنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ بہت لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں۔ عدالت کو کہا گیا تھا سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی۔ اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا۔ کیا الیکشن کیلیے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھیں۔ جس پر تین رکنی بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے۔ کومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے۔ مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے۔ کیا آپ کو سپلیمنٹری بجٹ مسترد ہونے کے نتائج کا علم ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمارا نقطہ نظر سمجھ چکے ہیں۔ انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں۔ حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے۔ توقع ہے کہ آپ ہمارا نقطہ نظر سمجھ چکے ہیں اور حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔ حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے۔ اس معاملے کے نتائج غیر معمولی ہوسکتے ہیں فی الحال غیر معمولی نتائج پر نہیں جانا چاہتے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو عدالتی احکامات پہنچا دیں۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہوسکتے۔ اس نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی اس بات سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ اس کی آبزرویشن کی بنیاد سیکیورٹی کی عدم فراہمی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی 1992 سے جاری ہے۔ ملک میں 1988، 1990، 1993، 1996، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن ہوئے، سیکیورٹی مسائل ان انتخابات میں بھی تھے۔ سیکیورٹی مسائل تو ان انتخابات میں بھی تھے۔ 2007 میں بینظیر بھٹو کی شہادت ہوچکی تھی جس کی وجہ سے 2008 میں تو حالات بہت کشیدہ تھے، 2013 میں بھی دہشتگردی تھی۔ اس بار ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جو الیکشن نہیں ہوسکتے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے ایک ساتھ تمام سکیورٹی فورسز نے فرائض سر انجام دیے تھے، اب دو صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا گارنٹی ہے 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے۔ حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کا کام بیرونی خطرات سےنمٹنا ہے۔ وہ 2001 سے سرحدوں پر مصروف ہیں۔میری درخواست پر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بریفنگ دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکرٹری دفاع بھی موجود تھے۔ ملاقات میں افسران کو بتایا تھا دوران سماعت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا۔ سب کو بتایا کہ فیصلہ ہو چکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں۔ الیکشن کمیشن نے پہلے کہا وسائل دیں الیکشن کروالیں گے اور اب کہتے ہیں ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔ وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب استدعا ہے۔ کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کروانے کی استدعا کرسکتی ہے؟ وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔ ٹی وی پر سنا ہے وزرا کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو وزیراعظم سے ملے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی بھی شہباز شریف اور عمران خان سے ملے ہیں، کوشش ہے کہ ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو۔ ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں۔ بلاول آج مولانا فضل الرحمان سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے۔ معاملات سلجھ گئے تو شاید اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے۔ دونوں فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے۔ منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے۔ 14 مئی بھی قریب آچکا ہے۔