کراچی : سندھ ہائیکورٹ نے جبری گمشدگی سےمتعلق سوالات اٹھا دیئے اور کہا بتایا جائے کہ جبری گمشدگی قرار دینے کا معیار اور طریقہ کار کیا ہے؟
تفصیلات کے مطابق گمشدہ افراد سے متعلق کیس میں سندھ ہائیکورٹ نے جبری گمشدگی سےمتعلق سوالات اٹھا دیئے۔
جے آئی ٹیز نے محمد اقبال ،اسماندیم،ثمینہ بی بی،شیرخان کے پیاروں کو جبری گمشدہ قرار دے دیا، محکمہ داخلہ سندھ نے عدالت کو بتایا کہ جبری گمشدگی کے بعد ان کے اہلخانہ کی مالی امداد کی منظوری دیدی گئی،وزیر اعلیٰ ہاؤس سے 29 لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی مالی معاونت کی منظوری لی۔
عدالت نے کہا کہ جب تسلیم کرلیا گیا کہ شہری کو جبری گم کیاگیاہے تو اسکی وجہ بھی بتائی جائے، یہ بھی بتایا جائے کہ شہری کہاں ہیں اور کس ادارے کے پاس ہیں، جس پر وکیل رینجرز کا بتانا تھا کہ جبری گمشدگی کا قرار دینے کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ کسی ادارے نے گمشدگی تسلیم کی۔
جس پر سندھ ہائی کورٹ کے جج نے ریمارکس دیئے عدالت کو بتایا جائے کہ جبری گمشدگی قرار دینے کا معیار اور طریقہ کار کیا ہے، کس قانون کے تحت لاپتہ شہریوں کو جبری گمشدہ قرار دیاجاتا ہے۔
حبیب احمد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ درخواست گزاروں کے الزامات کی روشنی میں جائزہ لیا جاتاہے ، قانون نہیں ،یہ پریکٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شروع ہوئی ، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلے سمیت اس سلسلے میں جومواد ہےوہ پیش کیا جائے۔
پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ 17 سالہ طالبہ حفظہ مدرسے کی طالبعلم تھی اور اپنی دوست کیساتھ لاپتہ ہوئی، دوست طالبہ کوگرفتار کیا تفتیش سے پتہ لگااس نے اپنی دوست طالبہ کو شہزاد کے پاس چھوڑا تھا۔
تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ شہزاد کو بھی گرفتار کیا مزید تفتیش سےمعلوم ہوا ہے طالبہ حفظہ فیصل آباد میں ہے، بچی کو بازیاب کرانے کے لئے بھر پور کوشش کی جارہی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے جبری گمشدہ شہریوں کے اہلخانہ کو معاوضہ دینے کی ہدایت کرتے ہوئے گمشدہ 6 سے زائد مزید شہریوں کی بازیابی کے لیے جے آئی ٹیز کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر تفتیشی افسران سے پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے درخواستوں کی سماعت 30 مئی تک ملتوی کردی۔