کچے کے ڈاکو پولیس افسران کو بلیک میل کرنے کے لیے بچوں کو اغوا کرنے لگے ہیں، آئی جی سندھ کے مطابق کچے کے ڈاکو اپنے خلاف پولیس آپریشن روکنا چاہتے ہیں اس لیے بچوں کی اغوا کی وارداتیں بڑھا دی ہیں۔
اے آر وائی نیوز کو خصوص انٹرویو دیتے ہوئے انسپکٹر جنرل سندھ پولیس غلام نبی میمن نے بتایا کہ ڈاکو پولیس افسران کو بلیک میل کرنے کے لیے بچوں کو اغوا کرنے لگے ہیں، ڈاکو اپنے خلاف پولیس آپریشن روکنا چاہتے ہیں اس لیے بچوں کی اغوا کی وارداتیں بڑھا دی ہیں۔
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ ڈاکو ردعمل کے طور پر ایسا کرتے ہیں، انھوں نے چالاکی سے اقلیتوں اور بچوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے جس سے ان کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ یہاں تعینات پولیس آفیسر ناکام ہوچکے ان کا ٹرانفسر کردیا جائے۔
غلام نبی میمن نے کہا کہ پولیس کو جدید اسلحہ ملنا شروع ہوگیا ہے، کچے کے راستے خراب ہیں جبکہ ڈاکوئوں کے پاس اب بہتر اسلحہ آگیا ہے، ہم نے سندھ حکومت کو اسلحے کے لیے خط لکھا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وینڈر سے بات چیت چل رہی ہے جلد ہمیں مزید اسلحہ مل جائے گا، ٹول پلازہ پر سی سی ٹی وی کیمرہ لگا رہے ہیں، گزشتہ نو ماہ کے دوران 50 ڈاکوئوں نے ہتھیار ڈالے ہیں جبکہ 275 کرمنلز کے سر کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔
سیاستدان، پولیس افسران کی ڈاکوئوں کی خفیہ مدد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس بطور ادارہ کسی جرائم پیشہ کے ساتھ نہیں، کرمنلز کا ساتھ دینے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں، اگر کوئی کسی ڈاکو کی مدد کرتا ہے تو یہ سارا انفرادی فعل ہے۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کبھی بھی ایسے بندے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، ایسے لوگوں کے خلاف جب بھی کوئی ثبوت ملتا ہے تو ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مجھے آج تک کوئی اس طرح کی کال نہیں آئی کہ اس نے جرم کیا ہے، یہ بڑا آدمی ہے اسے چھوڑ دیں، سندھ حکومت کی بڑی واضح پالیسی ہے اور اس کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ سندھ کو جاتا ہے۔