سندھی زبان و ادب کی معروف شخصیات میں ایک نام نادر بیگ مرزا کا بھی ہے جو افسانہ نگار اور شاعر تھے۔ نادر بیگ مرزا شمسُ العلماء مرزا قلیچ بیگ کے فرزند تھے جنھیں سندھی ادب کا معمار بھی کہا جاتا تھا۔ علمی و ادبی گھرانے اور کتابوں کے درمیان آنکھ کھولنے والے نادر بیگ نے اپنے دور میں بحیثیت قانون داں بھی شہرت پائی۔
16 مارچ 1891ء کو سندھ کے شہر کوٹری میں نادر بیگ مرزا پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت ان کے والد مرزا قلیچ بیگ مختار کار کی حیثیت سے کوٹری میں مقیم تھے۔ نادر بیگ کی ابتدائی تعلیم کوٹری، حیدرآباد اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں ہوئی۔ 1906ء میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن گئے اور 1912ء میں بیرسٹری کی سند حاصل کر کے لوٹے۔ نادر بیگ مرزا نے لاڑکانہ میں اپنی عملی زندگی زندگی شروع کی اور وکالت کرنے لگے۔ بعد میں جوڈیشل سروس میں شمولیت اختیار کی اورسندھ کے مختلف شہروں میں مجسٹریٹ تعینات ہوئے۔
نادر بیگ مرزا کو ادبی ذوق اپنے والد سے وراثت میں ملا تھا۔ انھیں اوّلین سندھی افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نادر بیگ مرزا کا قلم سماجی موضوعات پر حقیقت نگاری کے لیے پہچانا گیا۔ گو کہ ان کا تخلیقی سرمایہ بہت نہیں ہے مگر سندھی افسانے کے حوالے سے اس کا ایک حلقۂ اثر ضرور رہا ہے۔ ان کے زیادہ تر افسانے ماہنامہ ادبی جریدے ’’سندھو‘‘ میں شائع ہوتے تھے۔
نادر بیگ کے افسانوں کا ایک مختصر مجموعہ 1991ء میں انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی جامشورو سے شائع ہوا تھا۔ ان کے افسانوں میں طنز بھی ہے اور حقیقت کی گہرائی بھی۔ ان کی تحریروں میں زیادہ تر ہندو اور کہیں کہیں پارسی معاشرے کی کہانیاں ملتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں اچھوت، مس رستم جی، موہنی جی ڈائری، عینک کی آواز اور بھاوج نمایاں ہیں۔ نادر بیگ مرزا انگریزی میں شاعری بھی کرتے تھے۔
3 فروری 1940ء کو نادر بیگ مرزا کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں ٹنڈو ٹھوڑو میں ان کے آبائی قبرستان بلند شاہ میں دفن کیا گیا۔