جمعرات, جنوری 2, 2025
اشتہار

سر سیّد کو کن محاذوں پر کیسی کیسی لڑائیاں لڑنی پڑیں؟

اشتہار

حیرت انگیز

سر سید نے ہندوستان اور مسلمانوں کی تقدیر سنوارنے اور بدلنے کا ایک علمی اور عملی فیصلہ کیا۔ اس میں سائنس کی قوت اور تحقیق اور تعلیم اور تدریس کی روشنی اہمیت کے حامل تھے۔ اس انقلابی قدم کو کچھ لوگوں نے سمجھا اور سر سید کا ساتھ دیا۔ وقت کی ضرورت کا احساس کیا لیکن ایک طبقے نے حکومت کے اشارے اور شہ پر اپنی محدود سمجھ کی بنا پر سر سید کی علمی اور تعلیمی تحریکوں کی مخالفت شروع کر دی۔ اس تلخ اور شیریں داستاں کو سمجھنا اور دہرانا آج کے جائزے کا مقصد اور منتہیٰ ہے۔

ہم آج اندازہ نہیں کر سکتے کہ اپنے مشن اور مقصد کی تشکیل اور تکمیل کے لیے سر سید کو کن محاذوں پر کیسی کیسی لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ ۱۸۵۷ء کے چھ برس بعد سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ یہ وہ وقت تھا کہ صنعتی ہندوستان زراعتی ہندوستان میں تبدیل ہو چکا تھا۔

سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی میں زراعت کے جدید ترین تجربے کرائے۔ قانون پر لکچر دلوائے گئے۔ جدید سائنس پر کتابیں لکھوا کر چھاپی گئیں۔ لیکن انگریزی حکومت کے دباؤ میں اس عظیم الشان تجربہ کو بھی ایک تجربہ سمجھنا پڑا۔ سر سید جب ۱۸۷۰ء میں لندن سے لوٹے تو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا منصوبہ اور تہذیب الاخلاق جیسا عہد آفریں رسالہ لے کر آئے۔ سر سید نے لندن جانے سے پہلے ایک بڑی غلطی کی جس سے حکومت کے ارباب ناراض ہو گئے۔ یعنی ۱۸۶۶ ء میں انہوں نے ایک اخبار سائینٹفیک سوسائٹی جاری کر دیا۔ سر سید اس اخبار کی پالیسی کے نگراں تھے۔ پہلے ہی سال میں حکومت نے اخبار کی پالیسی اور لب و لہجے کا سخت نوٹس لیا اور اس کے ایڈیٹر نور محمد کو الگ کرنا پڑا۔ حکومت نے اس رجحان کو باغیانہ بتایا۔

- Advertisement -

سرسید نے لندن میں دیکھا کہ وہاں کے اخبار اور رسالے تبدیلی اور تفکر کے بہت بڑے علمبردار ہوتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق کا منصوبہ تیار کیا۔ یہ رسالہ ہندوستان میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی تحریک کا ترجمان، دینی فکر میں تجدد اور تحقیق کی آواز اور سماجی اقدار کی نئی تشکیل کا ذریعہ بن کر ظاہر ہوا۔ حکومت پسند اور قدامت پسند طبقے نے اس کو پسند نہیں کیا۔ حکومت اعلیٰ مغربی تعلیم کے رواج کو پسند نہیں کرتی تھی۔ اسی دوران میں ۱۸۷۲ء میں انڈمان نکوبار میں پہلی مرتبہ انگریز وائسرائے لارڈ میسو کا غلطی سے قتل ہو گیا، قاتل شیر علی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ وائسرائے کا قتل کر رہا ہے۔ نئے وائسرائے لارڈ نارتھ بروک نے کالج کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ سر سید کے بڑے مخالف علی بخش بدایونی سید امداد العلی حکومت کے خطاب یافتہ اور ملازم تھے۔ ان کی مخالفت سرکاری اشارے پر تھی۔

۱۸۷۲ء میں سر سید نے بنارس سے ایک کتاب شائع کی جس میں ان لوگوں کی رائے کا خلاصہ پیش کیا تھا جو کالج کے تعلیمی منصوبے کو ایک خاص شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان میں مشہور مفکر مسیح الدین کاکوروی جو لندن میں رہ چکے تھے اور جن کا خاندان پچھلے ستر برس سے انگریزی حکومت کے اعلی عہدوں پر متمکن تھا۔ اس میں مسیح الدین کاکوروی کا رسالہ شامل تھا۔ سخاوت علی مدہوش اور سید مہدی علی کے رسائل شامل تھے۔ حالی کا یہ بیان غلط ہے کہ سر سید ڈسپاٹک (خود رائے) طبیعت کے مالک تھے۔ سر سید نے ہر مرحلے پر مشورے کو اہمیت دی لیکن اپنی رائے اور عمل کو اختلاف میں الجھایا نہیں بلکہ سلجھایا اور آخر ۲۴ مئی ۱۸۷۵ ء کو علی گڑھ میں محمد کریم کی صدارت میں ایم۔ اے۔ او کالج کی بنیاد ڈالی۔ اور یہاں سے وہ قافلہ شروع ہوا جس نے ہندوستان کے بدلنے میں بہت بڑا رول ادا کیا۔ اس کالج نے صرف مسلمانوں کو فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ ہندو بھی اس کے فائدے سے دور نہیں رہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے اتنا فائدہ نہیں اٹھایا جتنا اعلی ذات کے ہندوؤں نے اٹھایا۔ اسٹاف اور طالب علم دونوں میں وہ ضرورت سے زیادہ نمائندگی رکھتے تھے۔ یہ علم و تدریس کا انوکھا تجربہ تھا جہاں مقصد اور محور مسلمان تھے لیکن ہندو زیادہ فیض یاب ہوئے۔

اس کی بڑی وجہ انگریزوں کی ظاہری اور در پردہ مخالفت تھی۔ یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ کالج اور سر سید کے خلاف یہ مشہور کیا گیا کہ سر سید نے کالج زمینداروں کے لیے قائم کیا۔ اودھ کے اضلاع سے نہ ہونے کے برابر طالب علم آئے۔ وہاں انگریزی حکومت کی گرفت زیادہ تھی۔ اگر پنجاب سے مسلمان نہ آتے تو شاید کالج بند ہو جاتا۔ رنجیت سنگھ کے زمانے میں پنجاب کے مسلمان تباہ ہو گئے۔ پٹیالہ کی ریاست مسلمانوں کی سر پرست تھی۔ خلیفہ سید محمد حسین وزیر اعظم پٹیالہ کی کوشش سے پہلی بڑی امداد مہا راجہ پٹیالہ نے دی۔ کالج کی مخالفت میں انگریزوں کے ہمنوا زمیندار اور دوسرے درجے کے مولوی آگے آگے تھے۔ اور یہ وہ لوگ تھے جن کے مقاصد قلیل، جن کی نظر محدود تھی اور جن کا حوصلہ مسدود تھا۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ کالج کے اورینٹل سیکشن جہاں قدیم درس ِ نظامی اور جدید علوم کی تدریس جاری تھی، اس شعبے کو طالب علم نہیں مل رہے تھے۔ اس شعبے میں مولانا اکبر ابن مولانا نور الحسن کاندھلوی موجود تھے۔ بعد میں شبلی نعمانی اس شعبے میں استاذ ہوکر آئے۔ آخر میں درس نظامی کی تعلیم کا یہ شعبہ ۱۸۸۵ء میں بند ہو گیا۔ مگر سید محمود اس شعبے کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔

سر سید نے ۱۸۸۲ ء کے ہنٹر تعلیمی کمیشن کے سامنے صاف صاف بتایا کہ انگریز حکام ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اعلٰی مغربی تعلیم کا رواج نہیں چاہتے ہیں۔ سر سید نے کہا کہ تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ سر سید کی یہ آواز جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بار بار دہرائی گئی۔ سر سید نہایت پامردی سے لڑتے رہے مگر یہ واقعات داستان بن کر بھی حیات جاوید کے صفحات سے غیر حاضر رہی۔ اور یہی وجہ ہے کہ سر سید کو کالج کی ترقی اور تعمیر کے لیے روپیے نہیں مل رہے تھے اور طالب علم بھی نہیں مل رہے تھے۔ مسلمان استاد نہیں مل رہے تھے۔ ٹیچر ڈپٹی کلکٹر بن رہے تھے۔ سر سید کی تعلیمی جد و جہد کی کہانی مصیبتوں اور مشکلوں کے کانٹوں کی راہ ہے۔ یہاں بغیر آبلوں کے پاؤں زخمی ہیں۔ یہ مخالفت روز بروز بڑھتی گئی، یہاں تک کہ سر سید نے کالج کی تحریک کو ایک تعلیمی تحریک میں تبدیل کر دیا اور ۱۸۸۶ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کی بنیاد ڈال دی۔
اب انہوں نے مختلف جگہ جلسے کیے اور مسلمانوں کو تعلیم کے لیے جگا نا چاہا۔ اس میں ان کو کچھ موافق بھی ملے۔ سر سید کے سامنے اس کانفرنس کے گیارہ جلسے ہوئے۔ جن لوگوں نے ان جلسوں کی صدارت کی ان میں حشمت اللہ، عماد الملک سید حسین، جسٹس شاہ دین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کانفرنس کے بنانے کے تین برس بعد سر سید کو دسمبر ۱۸۸۹ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے لیے قانون ٹرسٹیاں بنانا پڑا، کیوں کہ گورمنٹ کالج کو ایک عربی فارسی کا کالج بنانا چاہتی تھی۔ الہ آباد یونیورسٹی کو سر سید نے ایک لاہور کے طرز کی اورینٹل یونیورسٹی نہیں بننے دیا۔ اس قانون ٹرسٹی میں سید محمود کے آیندہ سکریٹری ہونے کا ذکر تھا۔

اب سر سید کے پرانے ساتھی سمیع اللہ خاں اور خواجہ محمد یوسف بھی سر سید کے مخالف ہو گئے۔ علی گڑھ اور بلند شہر کے رئیس انگریزی حکومت کے اشارے پر سخت مخالف ہو گئے۔ نواب لطف علی خاں چھتاری جن کے والد نواب محمود علی خاں سر سید کے پہلے سے مخالف تھے، سرکاری ملازمین کا ایک طبقہ اور مقامی رئیسوں کا ایک حصہ نہ صرف اختلاف رکھتا تھا بلکہ سر سید اور ان کی تعلیمی تحریک کا دشمن تھا۔ یہاں تک کہ سر سید کی جان بھی خطرے میں پڑ گئی۔

(فرخ جلالی کے مضمون ‘سر سید اور علی گڑھ تحریک کے موافق اور مخالف’ سے اقتباسات)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں