کراچی: سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی)، جس کا شمار اس خطے میں ممتاز طبی ادارے کے طور پر ہوتا ہے، میں اب بچوں کے دل اور گردوں کے علاج کی جانب ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔
ایس آئی یو ٹی کی مرکزی عمارت سے چند قدم کے فاصلے پر واقع نیا اسپتال جسے ’’مریم بشیر داؤد چلڈرن اسپتال‘‘ کہا جاتا ہے، جس کی تعمیر میں بشیر داؤد کے مخیر خاندان نے اس اسپتال پر 7 ارب روپے سے زائد کی مالی معاونت فراہم کی، جب کہ صوبائی حکومت کی جانب سے مزید فنڈز بھی متوقع ہیں، یہ اسپتال اب ملک کا پہلا سرکاری سطح پر بچوں کے علاج کا جدید ترین مرکز بن گیا ہے۔
ایس آئی یو ٹی کے ذرائع کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 80 ہزار سے 100,000 بچے ایسی پیدائشی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جن میں دل کے نقائص اور گردوں کی خرابیاں شامل ہوتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر ان بیماریوں کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ نہ صرف جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں، بلکہ معذوری کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔
ٹرانسپلانٹ کے بعد انفیکشنز سے موت کے خطرات کس طرح کم کیے جا رہے ہیں؟
ایس آئی یو ٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ملک میں ایسی اعلیٰ معیار کی مخصوص طبی سہولیات کا حصول عام عوام کے لیے محدود ہے، جب کہ نجی اسپتالوں میں ان بیماریوں کے علاج پر 5 لاکھ سے زائد اخراجات آتے ہیں، جو کسی بھی متوسط خاندان کے لیے ناقابل برداشت بوجھ بن جاتے ہیں۔
14 منزلوں پر مشتمل یہ عظیم الشان عمارت ایک جدید ترین سرجیکل مرکز کے طور پر ڈیزائن کی گئی ہے، جہاں بچوں کی دل کی پیدائشی بیماریوں (بشمول بڑوں کے دل کے امراض) اور گردوں کی ناکامی میں مبتلا بچوں کو ڈائیلاسز سمیت پیچیدہ یورولوجی مسائل کا اعلیٰ درجے کا معیاری علاج فراہم کیا جائے گا۔
اس اسپتال میں جدید آپریٹنگ رومز، ماڈیولر آپریٹنگ تھیٹرز، اور ہائبرڈ کارڈیک کیتھ لیب جیسی سہولیات دستیاب ہیں، جو اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ پاکستان کے بچے بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح اعلیٰ معیار کی طبی نگہداشت حاصل کر سکیں۔ ایس آئی یو ٹی کے فلسفہ حیات کے مطابق تمام طبی سہولیات مفت فراہم کی جائیں گی، یہ پالیسی ادارے کے بانی پروفیسر ادیب رضوی کی سوچ کا مظہر ہے، جو صحت کو کسی خاص طبقے کی سہولت نہیں بلکہ ہر انسان کا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔