پاکستان میں کسی بھی سرکاری ادارے میں درخواست گزار کو غلامانہ انداز میں کیوں درخواست لکھنی پڑتی ہے، چاہے درخواست گزار کی غلطی ہو یا نہ ہو، مگر اس کو یہ سرکاری فریضہ ہر حال میں ادا کرنا پڑتا ہے۔
آپ نے بھی کبھی اس قسم کی درخواست لکھی ہوگی یا دیکھی ہوگی، جو اس قسم کے الفاظ اور القابات سے مزین ہوتی ہے:
مؤدبانہ گزارش مگر کیوں؟
عزت مآب، عالی مرتبت، جنابِ عالی، براہِ مہربانی، ازراہِ کرم مجھ غلام کی درخواست قبول کی جائے، مجھ غریب کی فریا د کو قبول کیا جائے، مؤدبانہ گزارش ہے، گوش گزار کرنا چاہتا ہوں، میں اور میرے بچے آپ پر قربان ہوں، مجھ غریب پر رحم کریں، گزارش ہے، جنابِ عالی سائل حسبِ ذیل عرض گزار ہے، نہایت ادب و احترام سے گزارش ہے۔
حاکمانہ انداز اور گورے کا بوجھ
دوسری جانب سرکاری اداروں کی جانب سے عوام کو جو لیٹر جاری کیے جاتے ہیں، اس میں بھی حاکمانہ الفاظ ادا کیے جاتے ہیں، جیسے بحکم ایس ایچ او صاحب، بحکم ڈی آئی جی صاحب، بحکم ڈپٹی کمشنر صاحب وغیرہ وغیرہ۔
انگریز نے دنیا بھر میں کالونیاں بنانے کے ساتھ ساتھ دنیا کی پس ماندہ قوموں کی اصلاح کا بھی نام نہاد بیڑہ اٹھا رکھا تھا، اس لیے انگریز حکمراں ہر جگہ ایک جملے کا اظہار برملا کرتے تھے: ’’Its White man’s burden‘‘
انگریز لکھاریوں نے ہمیں آداب غلامی سکھانے کے لیے باقاعدہ کتابیں لکھیں، ان میں سے ایک کتاب ڈبلیو ٹی ویب نامی شخص نے لکھی: English etiquette for Indian gentlemen۔ اس کتاب میں علم کی آگہی سے زیادہ محکومیت اور غلامی سکھانے کی تجاویز زیادہ ہیں۔
عدالتی رسم
یہاں تک کہ عدالت میں بھی کسی مجبور اور ظلم کے شکار فرد کو سائل لکھنا پڑتا ہے، یعنی جو انصاف کا طلب گار ہے وہ عرض گزار ہے، اور سائل یہ مطالبہ نہیں کر سکتا تھا کہ انصاف دیا جائے، بلکہ التجا اور درخواست پیش کر سکتا تھا۔ جب ہماری عدالتوں میں یہ رسم رائج ہے تو سرکاری اداروں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
ہم آج 2023 میں رہ رہے ہیں، مگر ہمارے سرکاری ادارے آج بھی پس ماندہ ماضی کی یاددگار ہیں، جہاں دقیانوسی اور روایتی منفی رویے کے سبب کسی ضرورت مند کو اپنے جائز کام کے لیے بھی ان گنت کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان اداروں میں ساری خرابی کی بنیاد صرف رشوت ستانی نہیں، بلکہ رعونیت اور سرخ فیتے کا وہ تصور ہے جو ہمارے سرکاری بابو کو ورثے میں ملا ہے۔ ان دفاتر کا سارا نظام ایک مخصوص ذہنی سطح کی عکاسی کرتا ہے، جسے ہم کسی بھی آمرانہ اور نوآبادیاتی دور سے منسوب کر سکتے ہیں۔
سرکاری دفتر
آپ سرکاری ادارے میں چلے جائیں، آپ کو ایک مخصوص دقیانوسی روایتی ماحول کا احساس ہوگا، جہاں ایک عام آدمی اپنے آپ کو غیر محفوظ اور سہما ہوا محسوس کرتا ہے۔ کسی بھی کلرک سے لے کر افسران تک سے ملنے کے لیے دربان کا مرہون منت بننا پڑتا ہے، رشوت دینے کے باوجود دوسرے درجے کے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افسران میٹنگ پر میٹنگ کے نام پر ضرورت مندوں سے ملنے سے اجتناب کرتے ہیں اور خلق خدا سارا سارا دن ذلیل و خوار ہوتی ہے۔
کسی ایک ادارے یا سرکاری دفتر میں عوام کو معمولی سی عزت نہیں دی جاتی، حتیٰ کہ نائب قاصد اور گارڈ تک ہر شہری کو بے عزت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ملک میں عزت کا معیار صرف طاقت ور امیری سے منسوب ہو گیا ہے۔ بہ ظاہر نظر آتا ہے کہ ہمارے سرکاری اداروں کے اہلکار کسی ضرورت مند شہری کو ذلیل کر کے نفسیاتی طور پر اطمینان پاتے ہیں۔
دنیا بھر میں سرکاری ادارے عوام کے مسائل کی بہتر انداز میں داد رسی کے لیے بنائے جاتے ہیں، لیکن ہمارے سرکاری ادارے ایک انتہائی منظم، مربوط اور سفاک نظام کے تحت موجود ہیں، جس میں پولیس، انتظامیہ، ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے، محکمہ مال، اکاﺅنٹس کے محکمے، خوراک اور صحت کے ادارے شامل ہیں، جو عام آدمی کے لیے سہولت گاہ کی بہ جائے مسائل پیدا کرتے ہیں، اور یہ ادارے وقت کے ساتھ ساتھ ریاست کے مقابلے میں کئی ریاستوں کا کردار بھی ادا کرتے نظر آتے ہیں۔
ضابطے سادہ بنائے جائیں
ہر حکومت اگر عوام کے معاشی مسائل حل نہیں کر سکتی تو دفتری نظام کو بہتر اور فعال بنا کر انھیں روز مرہ مسائل سے تو نجات دلا سکتی ہے، مگر اس انقلابی تبدیلی کا دار و مدار بھی اس سوچ کا مرہون منت ہے جو ہمارے حکمرانوں میں ناپید ہے۔ ریاست کے دفتری نظام اور سرکاری اداروں کے بابوؤں کی سوچ اور تکبر پر مبنی رویے میں تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک سرکاری اداروں کے ضابطوں اور قوانین کو بھی سادہ اور آسان نہ بنایا جائے، کیوں کہ ان کی پیچیدگی سے فائدہ اٹھا کر سرکاری عمال عوام کے لیے قدم قدم پر مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔