ممتاز ادیب، کالم نویس اور طنز و مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی آج اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔
وہ طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے مشہور تھے جب کہ علمی و ادبی موضوعات میں انھیں ایک محقق، مترجم، اور زبان و بیان کے ماہر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے شائستہ اور بامقصد ادب تخلیق کرنے کو اہمیت دی۔ ایک بیدار مغز لکھاری کی طرح معاشرے میں بے ضابطہ پن پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی مضامین اور کالم لکھے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی وضع دار، بامروّت، شفیق، ملن سار، خوش مزاج مشہور تھے۔ وہ اپنے خورد معاصرین اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ستائش کے ساتھ زبان و بیان اور املا انشا کی درستی میں مدد دیتے اور اصلاح کرتے۔
ان کے علمی مضامین اور کالم باقاعدگی سے پاکستان کے مؤقر جرائد اور روزناموں میں شایع ہوتے رہے ہیں۔
انھوں نے ایل ایل بی، ادیب فاضل اور صحافت میں ایم اے کیا اور بعد ازاں صوبائی سوشل سیکیورٹی ادارے سے وابستہ ہوئے، جامعہ کراچی میں صحافت کی تعلیم کے لیے اعزازی تقرری ہوئی۔
مرحوم نے 1953 میں اپنی ایک تحریر کی اشاعت کے بعد مزاح نگاری کا کا سلسلہ شروع کیا اور خوب نام و مقام بنایا۔ مجید لاہوری جیسے نام ور مزاح نگار کے مقبول ترین رسالے نمکدان سے طنز و مزاح نگاری کا سفر شروع کیا۔ 1962ء میں اس رسالے کی بدولت ان کا نام طنز و مزاح نگار کے طور پر قارئین کے سامنے آیا۔ اسی میدان میں انھوں نے انگریزی زبان میں بھی قلم کو تحریک دی اور 1982 سے مشہور و مستند انگریزی جرائد اور روزناموں کے لیے کالم لکھنے لگے۔ انھوں نے ابنِ منشا کے قلمی نام سے بھی اردو کالم لکھے۔
1983ء میں ان کی کتاب سماجی تحفظ سامنے آئی جو ایک نہایت اہم موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ اسی موضوع پر انگریزی زبان میں کتاب شایع کروائی جو ایم اے کے طلبا کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کے بعد اشتہاریات کے عنوان سے اردو میں ان کی وہ قابل قدر کاوش سامنے آئی جسے آج بھی مارکیٹنگ کے نصاب میں اوّلین اور نہایت کارآمد تصنیف کہا جاتا ہے۔
انھوں نے پہاڑ تلے، اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں، کتنے آدمی تھے، حواسِ خستہ جیسی شگفتہ مضامین پر کتب کے علاوہ دیگر موضوعات پر لگ بھگ 26 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔
ان کی نمازِ جنازہ اور تدفین کل (21 ستمبر 2021) کی جائے گی۔