سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے نتائج کی روشی میں کہا ہے کہ پاگل پن کی شروعات میں سگریٹ نوشی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ تاہم اس مفروضے کی مکمل سائنسی صداقت کے لیے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔
اس تحقیق میں سائنسدانوں نے پندرہ ہزار تمباکونوش اور دو لاکھ 73 ہزار نان اسموکرز کا تجزیہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان دونوں گروپوں میں سے کون سے گروپ میں شیزوفرینیا یا پاگل پن میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔
مکمل اور جامع تجزیے کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ تمباکونوش افراد دراصل نان اسموکرز کے مقابلے میں التباسات، اوہام، وسوسوں اور غیر حقیقی خیالی تجربات کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔ گویا تمباکو نوشی شیزوفرینیا کی ان بنیادی علامات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔
اس تحقیق کے بعد بھی محققین تمباکو نوشی اور پاگل پن کے مابین کوئی براہ راست تعلق ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں تاہم انہوں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ نان اسموکرز کے مقابلے میں سگریٹ نوش افراد میں پاگل پن کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق سائیکوسس کے پہلے مرحلے کا شکار ہونے والے افراد میں ستاون فیصد اسموکرز ہی تھے۔
کنگ کالج لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف سائیکیٹری سے وابستہ نفسیاتی امراض کے ماہر جیمزمیکابے کے بقول، ’’ تمباکو نوشی اور پاگل پن کے مابین براہ راست تعلق تلاش کرنا انتہائی مشکل ہے۔‘‘ اس تحیققی ٹیم کے سربراہ میکابے نے البتہ خبردار کیا کہ تمباکو نوشی کو سنجیدگی سے لینےکی ضرورت ہے کیونکہ ممکنہ طور پر تمباکو نوشوں میں سائیکوسس کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔
سائیکوسس امراض کے ماہر میکابے کے بقول تمباکو بہت سے دیگرعوامل میں سے ایک ہے، جو انسان میں پاگل پن کی شروعات کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کے علاوہ طرز زندگی، کھانے پینے کی عادات، مخصوص جینیات کی منتقلی اور دیگر معاشرتی اور اقتصادی عوامل بھی انشقاق ذہنی (سائیکوسس) کا سبب بن سکتے ہیں۔
شیزوفرینیا ایک شدید ذہنی مرض میں شمار کیا جاتا ہے، جس کے تقریبا 100 افراد میں سے صرف ایک کو لاحق ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ یہ شدید دماغی بیماری بنیادی طورپرسن بلوغت کے ابتداء میں پیدا ہونا شروع ہوتی ہے۔ اس خطرناک بیماری کی علامات میں شدید قسم کے Delusions (التباسات) اور Hallucinations (اوہام) شامل ہوتے ہیں۔ مریض کے عمل و فکر میں تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور وہ غیر حقیقی تجربات محسوس کرتا ہے۔ کبھی اس کو آوازیں سنائی دیتی ہیں، جو حقیقی نہیں ہوتی تو کبھی وہ خیالی مناظر کو حقیقت تصور کرتا ہے۔