چترال:وادی کالاش کے آخری گاؤں شیخانندہ میں برف باری کے موسم میں سنو ہاکی یعنی برفانی ہاکی کھیلا جا تا ہے۔ مقامی روایات کا امین یہ کھیل انتظامیہ کی بے حسی کا شکار ہے۔
یہ کھیل کالاش قبائل اور مقامی مسلم آباد ی کے درمیان ایک طویل عرصے سے کھیلا جارہا ہے اور اس کی فاتح ٹیم کے کپتان کو تین روز تک وادی کا بادشاہ بنایا جاتا ہے، جسے مقامی زبان میں مہتر کہتے ہیں۔
رواں برس اس کھیل وادی سے باہر کے علاقے گوبور کی ٹیم نے بھی حصہ لیا، اورفائنل جیت لیا، جبکہ کراکاڑکے سے تعلق رکھنے والی کالاش ٹیم ہار گئی، جس کے بعد بادشاہ بنانے کی رسم ادا نہیں کی گئی۔ گوبور کی ٹیم نے پانچ کے مقابلے میں 11گول سے یہ میچ جیتا۔
اس کھیل میں علاقے سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ کالاش مہمان خصوصی تھے جبکہ ضلع ناظم مغفرت شاہ نے بھی اس میں شرکت کی ،تاہم صوبائی حکومت کے محکمہ سیاحت یا ضلعی انتظامیہ کی کسی بھی افسر نے اس میں شرکت نہ کی۔
گوبور سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف نے اس کھیل کے بارے میں بتایا کہ یہ کھیل صدیوں سے اس وادی میں کھیلا جاتا ہے۔ جس میں لکڑی سے بنے ہوئے ایک بال جو گول ہوتا ہے اس کو کالا رنگ دیکر لکڑی ہی سے بنے ہوئیے ہاکی سے مارا جاتا ہے، اس ہاکی کی سرے میں لکڑی کو تراش کر اس میں چھوٹا سا سوراح بنایا جاتا ہے تاکہ جب بال برف میں گر جائے تو بال کو اسی سوراح نما جگہہ میں رکھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جائے۔ اس کو لکڑی سے مارا جاتا ہے۔ تاہم اس بال کو ہاتھ لگانا منع ہے اگر کسی نے غلطی سے ہاتھ لگایا تو اس کا ایک گول ختم تصور ہوگا اور محالف ٹیم کو ایک گول کی برتری دی جاتی ہے۔
محمد ظاہر کا کہنا ہے کہ اگرحکومت نے اس کھیل کو ترقی دینے کیلئے کوئی قدم اٹھایا اور اس پر توجہ دی تو یہ بین الاقوامی حیثیت حاصل کرسکتا ہے اور دنیا کے کونے کونے سے تماشائی اور سیاح اس دلچسپ کھیل کو دیکھنے کیلئے اس وادی کا رخ کریں گے۔
سنو ہاکی یہاں برف پوش میدان میں کھیلا جاتا ہے۔ اس میں چار سے سات کلومیٹر کا لمبا میدان استعمال ہوتا ہے۔ بیک وقت دو، دو بال ایک سرے سے مارے جاتے ہیں جسے آگے لے جاتے ہوئے دوسرے سرے تک پہنچ جاتے ہیں جو ٹیم پہلے پہنچ گیا اس کا ایک گول شمار ہوتا ہے۔ مگر اس میں قدغن یہ ہے کہ بال کو ہاتھ سے نہیں چھو سکتے ہیں۔