کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ لوگ آپ کے مرنے کے بعد آپ کو کس طرح یاد کریں گے اور یاد بھی کریں گے یا نہیں؟ یا آپ بھی ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی طرح اس بھیڑ میں گم ہوجائیں گے جو اس دنیا میں آئے اور چلے گئے۔
زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور وہ بھی بہت مختصر اور ناقابلِ اعتبار۔ زندگی کا ہر ورق انمول اور اس کا ہر صفحہ قیمتی ہے، جو لمحہ گزر گیا وہ واپس آنے والا نہیں اور جو آیا نہیں اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اس ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک حال ہے، اس کا صحیح اور دانش مندانہ استعمال آپ کی زندگی کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ جس نے بھی اس کی اہمیت اور حقیقت کو جانا اس کے قدموں میں دولت، شہرت اور عزّت آگری اور جس نے بھی اسے پہچاننے سے انکار کر دیا، ناکامی، نامرادی اور پشیمانی اسے ہاتھ آئی۔
اس دنیا میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو کچھ کر دکھاتے ہیں، دوسرے وہ جو کسی کو کچھ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور دنگ رہ جاتے ہیں، تیسرے وہ جن کو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کیا ہوا؟
انسان کے لیے قدرت کا سب سے عظیم تحفہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو جیسی چاہے گزارے، اس کا اسے اختیار ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی کی فلم کا خود ہی ڈائریکٹر، رائٹر اورکمپوزر ہے۔ مگر ساتھ ہی قدرت کا یہ قانون بھی ہے کہ انسان جو بوئے گا وہی کاٹے گا، ایکشن کا رِی ایکشن اور عمل کا ردِ عمل لازمی ہے، اس میں امیر غریب، کالے گورے، ہندو مسلم یا شیعہ سنی کا کوئی فرق نہیں۔ فطرت کے اصول سب کے لیے برابر اور یکساں ہیں۔
موسموں کی تبدیلی، بیماریوں کا لاحق ہونا، حادثات کا وقوع، قدرتی آفات اور ناگہانی واقعات، زندگی میں اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز یہ سب فطری ہیں اور یہ دنیا میں ہر جگہ اور ہر آدمی کے لیے یکساں ہیں، موسم کسی خوب صورت حسینہ کو دیکھ کر انگڑائی نہیں لیتا، بیماری کسی امیر شہزادے کو دیکھ کر اپنا راستہ نہیں بدلتی، قدرتی آفتیں کسی خاص قوم اور شہر کاحصہ نہیں، رنج و غم اور خوشی و مسرت رنگ و نسل اور زبان و مذہب کی تفریق نہیں کرتیں، انہیں حالات میں کچھ لوگ ترقی اور کام یابی کے نقطۂ عروج پر پہنچ جاتے ہیں اور کچھ لوگ زندگی بھر کفِ افسوس ملتے رہتے ہیں۔
آپ نے کسانوں کو فصل اگاتے ضرور دیکھا ہوگا!
اگر کسان فطرت کے اصولوں پر عمل نہ کرے تو وہ کبھی فصل نہیں کاٹ سکتا اور فطرت جس طرح سہل، سادہ اور ہمہ گیر ہے اسی طرح فطرت کے اصول بھی ہیں۔ یہ فطری اصول کسانوں اور کاشت کاروں کو خوب معلوم ہیں لہٰذا وہ ان پر عمل کرکے انتہائی آسانی کے ساتھ اپنی فصلیں کاٹتے ہیں، فصل لگانے اور کاٹنے کے حسب ذیل اصول ہیں:
٭فصل کاٹنے سے پہلے فصل بونا ضروری ہوتا ہے:
یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ جب تک مٹی میں بیج نہ ڈالا جائے، کچھ نہیں ہوگا۔ بعینہٖ اگر ہم اپنی زندگی کا کوئی ہدف اور مقصد طے نہیں کرتے تو کچھ نہیں ہوگا۔ کسان فصل اگاتا ہے اور رسک اٹھاتا ہے، اسے نہیں پتہ کہ وہ فصل کاٹ بھی پائے گا یا نہیں۔ پتہ نہیں کون سی آفت اس کی کھیتی کو تباہ کردے مگر پھر بھی وہ رسک لیتا ہے۔ اسی طرح زندگی میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے رسک لینا ضروری ہوتا ہے۔
٭جو ہم بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں:
کسان اچھی طرح جانتا ہے کہ زمین میں چاول کا بیج ڈال کر گیہوں نہیں کاٹ سکتا، لہٰذا اسے جو فصل چاہیے اسی کا بیج ڈالتا ہے، آپ بھی انجینئرنگ پڑھ کر ڈاکٹر نہیں بن سکتے۔ دینی و مذہبی کتابیں پڑھ کر سائنس داں نہیں بن سکتے، عربی پڑھ کر فرنچ اور فرنچ پڑھ کر عربی نہیں بول سکتے، لہٰذا جو آپ پڑھیں گے، نتیجہ بھی اسی کا آئے گا۔
٭جتنا ہم بوتے ہیں اس سے کئی گنا پاتے ہیں:
آم کے ایک بیج کو زمین میں لگایا جاتا ہے، جب آم کا پیڑ پھل دیتا ہے تو ہزاروں آم ہر سال پیدا ہوتے ہیں۔ مکئی کا ایک دانہ زمین میں ڈالا جاتا ہے اور مکئی کے ہزاروں دانے ملتے ہیں، زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ آپ جو تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ اللہ تعالیٰ دولت، شہرت اور عزت عطا کرتا ہے، قدرت کی سخاوتیں اور فیاضیاں ایک کے بدلے ہزاروں اور سو کے بدلے لاکھوں دیتی ہیں۔
٭بیج بونے اور فصل کاٹنے کے درمیان وقفہ ہوتا ہے:
ایک کسان بیج ڈالنے کے بعد بیٹھ نہیں جاتا، وہ اپنے پودوں کی مسلسل پرورش کرتا ہے، اس کی حفاظت و صیانت کرتا ہے اور پودے کے بڑے ہونے اور پھر اس کے پھل دینے کا انتظار کرتا ہے۔ کام یابی حاصل کرنے کے لیے بھی ہمیں اپنے مقصد اور مشن کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ہر روز اس کے لیے مشقت اور جانفشانی اٹھانی پڑتی ہے اور ایک مدت تک انتظار کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر محنت کا پھل سامنے آتا ہے۔ کسی بھی شعبہ میں کام یابی راتوں رات نہیں ملا کرتی، بلکہ وہ ایک طویل مدت تک مسلسل تگ و دو اور عملِ پیہم کا نتیجہ ہوتی ہے۔
کام یابی کے بھی یہی اصول ہیں اور ان اصولوں پر جو بھی عمل کرے گا وہ کام یاب ہوگا۔
مان لیجیے آپ کو امریکہ جانا ہے، اگر آپ نے رات بھر نماز پڑھی، سفر کی کام یابی کی رو رو کر دعا مانگی اور صبح ایئرپورٹ پر پہنچے اور لندن کی فلائٹ پر بیٹھ گئے تو کیا آپ امریکہ پہنچ جائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ اس طرح زندگی میں کام یابی حاصل کرنے کے جو اصول و ضوابط ہیں ان پر کوئی بھی عمل کرے گا خواہ وہ ظالم ہو، مشرک و کافر ہو یا ملحد ہو کام یاب ضرور ہوگا۔ جس طرح روحانی ترقی اور معراج کے اپنے اصول اور طریقے ہیں اسی طرح دنیاوی ترقی کے بھی نمایاں فطری اصول موجود ہیں، جن کو اختیار کرنا کام یابی و کامرانی کی ضمانت ہے۔
دنیا کا کوئی شعبہ ہو، سیاست کا میدان ہو یا تجارت کا، تعلیم کا شعبہ ہو یا کھیل کا، سماجی خدمت ہو یا خالص دینی اور مذہبی نشر و اشاعت کا مشن، ہر ایک میں کام یابی کے اصول سبھی لوگوں کے لیے برابر ہیں، اس میں مذہب اور دین کا کوئی دخل نہیں، اس کو دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب طبعی اور فطری قوانین ہیں۔ ان پر جو بھی عمل کرے گا اس کو اس کا رزلٹ ملے گا۔
کسی بھی فرد یا جماعت یا ادارہ یا قوم کے لیے کام یابی اور کامرانی مقاصد کے تعین، ان کے حصول کی مسلسل کوشش، اپنے مشن سے لگاؤ اور سچی محبت، اپنی ہر حرکت اور ہر عمل کی پوری ذمہ داری لینے، شکوہ و شکایات کی عادت چھوڑنے، منفی بات، خیالات اور افراد سے دور رہنے، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے، مواقع اور وقت کا صحیح استعمال اور ایک مخصوص جہت اور ڈائرکشن میں چلتے رہنے پر منحصر ہے۔
اپنے مقصد و ہدف کی سچی چاہت، اپنی صلاحیت و قابلیت اور وسائل و ذرائع پر مکمل بھروسہ اور اعتماد اور اس کے حصول میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنا اور چاہے جیسے بھی سخت اور سنگین حالات ہوں اپنے مشن اور مقصد سے نہ ہٹنا اور ہمت نہ ہارنا یقینا کام یاب لوگوں اور کام یاب قوموں کی علامتیں اور صفات ہیں اور کسی بھی شعبہ میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے ان اوصاف و خصائص کو اختیار کرنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ ان کے بغیر کوئی بھی شاندار کام یابی حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اور یہی کامیابی کے آفاقی اور ابدی اصول ہیں۔
(مضمون از نقی احمد ندوی)