سخت ترین فیصلہ کرتے ہوئے آسٹریلیا نے 16سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی عائد کرنے کی منظوری دے دی۔
ملک میں سوشل میڈیا پر پابندی کی جذباتی بحث کافی عرصے سے جاری تھی، جس کے بعد آسٹریلوی حکام نے جمعرات کو اس فیصلے کی منظوری دی ہے، اس کے ساتھ ہی آسٹریلیا نے سوشل میڈیا پر سخت ترین ضابطوں کے حوالے سے دنیا بھرمیں ایک معیار بھی قائم کردیا ہے۔
قانون کے تحت انسٹاگرام اور فیس بک سے لے کر ٹک ٹوک تک بڑی ٹیکنالوجیکل کمپنیز اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ وہ نابالغوں کو لاگ ان کرنے سے روکیں
اگر یہ کمپنیاں نابالغوں کو ایسا کرنے سے نہیں روکتیں تو انھیں 49.5 ملین آسٹریلین ڈالرز (32 ملین امریکی ڈالرز) تک کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس قانون کو نافذ کرنے کے طریقوں کی آزمائش آئندہ سال جنوری میں شروع ہو گی جبکہ مذکورہ پابندی ایک سال میں نافذ ہو جائے گی، بہت سے ممالک پہلے ہی قانون سازی کے ذریعے بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال کو روکنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن آسٹریلیا کی پالیسی کافی سخت ہے۔
فیس بک اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی میٹا کے ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہم آسٹریلوی پارلیمنٹ کے طے کردہ قوانین کا احترام کرتے ہیں تاہم ہم فکر مند بھی ہیں۔
اس قانون سازی کے حوالے سے کافی تیزی دکھائی گئی جبکہ شواہد پر صحیح طریقے سے غور و فکر نہیں کیا گیا کہ ہماری صنعت پہلے سے ہی عمر کے مطابق تجربات اور نوجوانوں کے لیے کس لائحہ عمل کو یقینی بناتی ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ بل کے ساتھ منسلک تمام قواعد پر بہتر مشاورت ہو تاکہ ایک تکنیکی طور پر قابل عمل نتیجے کو یقینی بنایا جا سکے جو والدین اور نوعمروں پر زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔
گرینز پارٹی کی سینیٹر سارہ ہینسن ینگ نے اس حوالے سے کہا کہ ’یہ ایک کچرا بل ہے، اس میں کوئی بہترین بات نہیں ہے اور یہ مزید 12 ماہ تک بھی نہیں چل سکتا، بل بنانے والوں کوئی اندازہ نہیں کہ نوجوان انٹرنیٹ کے ساتھ کس طرح مشغول ہیں۔