نیو یارک : امریکا میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کا معاملہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا، آج بھی کچھ شرپسند عناصر سوشل میڈیا پر اپنی نفرت کا اظہار کررہے ہیں۔
امریکہ کے شہر نیو یارک میں حکام نے نو فائر فائٹرز کو اپنے فون سے نسل پرستانہ میسجز اور میمز شیئر کرنے پر بغیر تنخواہ کے معطل کر دیا ہے۔ ان میسجز اور میمز میں منی ایپلس میں پولیس کے ہاتھوں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کا بھی مذاق اُڑایا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایک ترجمان نے اس معطلی کو نیو یارک کے محکمہ فائر کی تاریخ میں دی جانے والی سخت ترین سزا قرار دیا ہے۔
فائر ڈپارٹمنٹ کشمنر ڈینیئل نگرو کا کہنا تھا کہ کئی سیاہ فام فائر فائٹرز سے شکایات موصول ہونے کے بعد محکمے نے 9 فائر فائٹرز کو بغیر تنخواہ کے کچھ دنوں سے لے کر چھ ماہ تک کے عرصے کے لیے معطل کر دیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نو میں سے ایک فائر فائٹر کے بارے میں توقع ہے کہ وہ اپنی معطلی کے دن مکمل ہونے کے بعد ایجنسی چھوڑ دیں گے۔ اس کے علاوہ فائر ڈپارٹمنٹ کے تین افسران کی سرزنش بھی کی گئی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق گذشتہ برس اپریل میں شیئر کیے جانے والے میمز اور میسجز میں سفید فام فائر فائٹرز نے منی ایپلس کے پولیس افسر ڈیرک شوون کے جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھنے سے ہونے والی ہلاکت کے لمحات کا مذاق اُڑایا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مذکورہ افسران نے دیگر نسل پرستانہ میسجز بھی شیئر کیے ہوئے تھے جن میں سے ایک مظاہرین پر آگ بجھانے کے آلے کے استعمال سے متعلق تھا۔
سیاہ فام فائر فائٹرز نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ان کا ماننا تھا ڈپارٹمنٹ میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے معطلی چھوٹی سزا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈپارٹمنٹ کے سربراہان نے تسلیم کیا ہے کہ وہاں نسل پرستی، صنفی امتیاز اور ہراسگی کو گوارا کیا گیا ہے۔
ڈینیئل نگرو کے مطابق محکمے نے حالیہ برسوں میں تاریخی طور پر متنوع(مختلف نسلی پس منظر کی حامل) کلاسوں کا اکیڈمی میں خیرمقدم کیا ہے۔
انہوں نے مسئلے کا اعتراف کیا لیکن کہا کہ محکمے میں ہر نسل اور طبقے کی شمولیت پر کام کیا جا رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ انہیں ایسا محسوس کروائیں کہ ان کا یہاں سے تعلق ہے تاہم کچھ صورتوں میں ہم ناکام ہوئے ہیں۔