تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، دو ججز کا اختلافی فیصلہ جاری

اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کر دیں۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے پنجاب کے پی الیکشن سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس ازخود نوٹس لینے اور اسپیشل بینچز بنانے کے وسیع اختیارات ہیں، ان اختیارات کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید اور اس کی عزت و تکریم میں کمی ہوتی ہے، یہ صحیح وقت ہے کہ ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔

ججز نے تحریری فیصلے میں کہا کہ چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، پوری عدالت کو صرف ایک شخص پر نہیں چھوڑا جا سکتا،ججز کو ان کی مرضی کے برعکس بینچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں ہے۔

اختلافی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ 2 ججز نے فیصلہ دیتے ہوئے بنچ میں رہنے کا معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑا، لیکن ان کا فیصلہ معاملے کے اختتامی حتمی فیصلے میں شامل ہے، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے 23 فروری کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔

ججز نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، اور از خود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے، ہائیکورٹ زیر التوا درخواستوں پر تین روز میں فیصلہ کرے۔

28 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے جاری کیا ہے۔ اختلافی نوٹ میں‌ کہا گیا کہ یہ بہترین وقت ہے کہ چیف جسٹس کے ون مین شو سے لطف اٹھانے کے اختیار کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، چیف جسٹس کے فیصلے کرنے کے اکیلے اختیارات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا، چیف جسٹس کے اختیارات فل کورٹ کے بنائے گئے قوانین کے تحت ہونے چاہئیں۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججز کی خواہش اور آسانی کرتی ہے، عدالتی دائرہ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی ہے نہ کہ اس سے جڑے مفادات، ججز کی خواہش غالب آ جائے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے، عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے، یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ ہائیکورٹ میں کیس زیر التوا ہونے کے باوجود از خود نوٹس لیا گیا، ازخود نوٹس کا دائرہ اختیار غیر معمولی، صوابدیدی اور بہت خاص نوعیت کا ہے، آرٹیکل 184 تھری کا دائرہ اختیار بنیادی حقوق کے مقدمات میں استعمال کیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس پاکستان کے از خود نوٹس لینے کا اختیار ریگولیٹ ہونا چاہیے۔

Comments

- Advertisement -