اتوار, دسمبر 15, 2024
اشتہار

جنوبی کوریا : مضبوط جمہوریت آمریت کا راستہ کیسے روکتی ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

جنوبی کوریا میں مارشل لاء کے اعلان اور اس کے چند گھنٹوں بعد ہی شدید عوامی ردعمل کے بعد اس فیصلے کا واپس ہوجانا زندہ قوم اور جمہوریت کی بہتری مثال ہے۔

ملک میں مارشل لاء کے نفاذ اور بعد میں اس فیصلے کی واپسی کیسے ہوئی اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے تما م صورتحال بیان کرتے ہوئے اپنا تجزیہ پیش کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس تاریخی واقعے کا آغاز 3 دسمبر کو ہوا جب جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے ملک میں جمہوریت کا بوریا بستر گول کرتے ہوئے ماشل لاء کے نفاذ کا اعلان کیا لیکن چند ہی گھنٹوں کے اندر شکست خوردہ صدر نے شدید عوامی ردعمل اور پارلیمنٹ کے ووٹ کو تسلیم کیا اور اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے مارشل لا کے خاتمے کا حکم جاری کر دیا۔

- Advertisement -

ماشل لاء کے نفاذ سے قبل قوم سے خطاب میں انھوں نے اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف رویے کا ذکر کیا اور پھر کہا کہ وہ مارشل لا نافذ کر رہے ہیں تاکہ تباہی پھیلانے والے ریاست مخالف عناصر کو کچلا جا سکے، جس کے بعد عوام سڑکوں پر نکل آئے۔

اور آج آخر کار سابق صدر کو یہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ ان کیخلاف مواخذے کی تحریک بھی کامیاب ہوئی اور انہیں اس عہدے سے علیحدہ کردیا گیا۔

اس واقعے کے دو محرکات تھے پہلا یہ کہ فیصلے کیخلاف عوام بڑی تعداد میں گھروں سے باہر نکل آئے، اور سڑکوں پر آکر یہ حکومت کو پیغام دیا کہ کسی بھی قاسم کی آمریت کو قبول نہیں کریں گے۔

دوسری جانب سیاستدانوں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا صدارتی تقریر سننے کے بعد وہ رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے فوری طور پر پارلیمنٹ پہنچے اور ووٹ کا حق استعمال کرکے اس اقدام کا رستہ روکا۔

اس بعد دنیا نے دیکھا کہ کس طرح فوج پیچھے ہٹی اور صدر کو مارشل لاء کا فیصلہ واپس لینا پڑا، یہی نہیں 7 دسمبر کو صدر نے قوم سے اپنی غلطی کی معافی مانگی۔ لیکن ان کا معافی مانگنا کافی نہیں تھا جس کے بعد ان کا مواخذہ کرنے کی تحریک شروع کی گئی۔

پہلی بار یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی جس کے بعد صدر یون سک یول نے 12 دسمبر کو ایک بار پھر مارشل لاء کے نفاذ کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے اس کا دفاع کیا۔ لیکن آج ان ہی کی جماعت کے ووٹ سے ان کا مواخذہ ہوگیا۔اس تمام صورت حال میں دس دن لگے۔

مواخذے کی تحریک

جموبی کوریا کی پارلیمنٹ نے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کی ناکام کوشش کرنے والے صدر کیخلاف مواخذے کے حق میں فیصلہ کیا، پارلیمنٹ کے 300قانون سازوں میں سے 204 اراکین نے مواخذے کے حق میں جبکہ 85 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق ووٹنگ کے بعد صدر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، اور اب آئینی عدالت اس کیس کا جائزہ لے رہی ہے جبکہ جنوبی کوریا کے وزیر اعظم کو قائم مقام صدر کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔

اگر آئینی عدالت ان کی برطرفی کی حمایت کرتی ہے تو سابق صدر یون سک یول جنوبی کوریا کی تاریخ کے دوسرے صدر بن جائیں گے جو مواخذے کا شکار ہوں گے۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق رائے دہی کے وقت پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر تقریباً دو لاکھ شہری جمع ہوگئے اور وہ بھی سابق صدر کے مواخذے کی حق میں شدید نعرے بازی کررہے تھے۔

اس کے برعکس اسی مقام پر سابق صدر کے حق میں نکالی جانے والی ریلی کے شرکاء کی تعداد 30ہزار کے لگ بھگ بتائی جارہی ہے۔

جمعے کے روز جاری ہونے والے گیلپ کوریا کے سروے کے مطابق سابق صدر کی پسندیدگی کی ریٹنگ 11فیصد تک گرگئی تھی۔ سروے کے نتائج کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ملک کے 75فیصد عوام ان کے مواخذے کی حمایت کرتے ہیں۔

جنوبی کوریا کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے صدر یون سک یول کے مواخذے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سئول کی سڑکوں پر ہزاروں افراد جشن منا رہے ہیں۔ آئینی عدالت کے پاس مواخذے پر فیصلہ دینے کے لیے اب 6 ماہ کا وقت ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں