جمہوریہ ملاوی، جسے ماضی میں ”نیسا لینڈ“ کہا جاتا تھا، سمندر سے محروم ملک ہے۔
افریقا کے جنوب مشرق واقع یہ ملک سطح مرتفع اور جھیلوں کی خوب صورت سرزمین رکھتا ہے جس کے شمال میں تنزانیہ، مشرق اور جنوب میں موزمبیق اورمغرب میں زمباوے واقع ہے۔ اس مختصر سی مملکت کا کل رقبہ 46 ہزارمربع میل سے کچھ کم ہے جب کہ اس رقبہ میں ایک بہت بڑی جھیل بھی شامل ہے جس کا مقامی نام تو کچھ اور ہے لیکن دنیا کے نقشوں پر اسے ”ملاوی جھیل“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایک زمانے تک ”زومبا“ اس مملکت کا دارُالحکومت تھا جو ملک کے جنوب میں واقع تھا لیکن 1975ء کے بعد سے نسبتاََ وسطی علاقے کا شہر”للونگوے“ یہاں کا دارُالحکومت ہے، یہ شہر ملک کا صنعتی اور کاروباری مرکز بھی ہے۔ اس سرزمین پر انسانی قدموں کی تاریخ پچاس ہزار سال قدیم ہے۔
”بنٹو“ زبان بولنے والے قبائل نے یہاں تیرہویں صدی سے پندرہویں صدی کے درمیان حکومت کی ہے، ان خاندانوں کا طرّۂ امتیاز ہے کہ انہوں نے تعلیم و تعلم کی اس قدر سرپرستی کی کہ اس دوران اور اس کے بعد کی مکمل تاریخ رقم کی گئی اور بہت کچھ جزیات تک بھی کتابوں میں میسر ہیں جب کہ افریقا جیسی سرزمین پر اس حد تک معلومات کی فراہمی شاذ و نادر ہی ہوا کرتی ہے۔
اٹھارویں صدی کے آخر میں یورپی فاتحین نے یہاں یلغار کی اور ان کا مقصد انسانوں کے شکار کے ذریعے غلاموں کی فراہمی تھا، چنانچہ جب تک یورپی سامراج یہاں رہا ”ملاوی“ کا علاقہ غلام فراہم کرنے والی بہت بڑی منڈی بنا رہا۔ 6 جولائی 1964ء کو ملاوی نے آزادی پائی۔
آبادی میں اضافے کی شرح پورے براعظم افریقا میں یہاں سب سے زیادہ ہے۔ اس ملک میں شہری زندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی کی اکثریت دیہات میں ہی رہتی ہے۔
ملاوی کا نصف علاقہ قابلِ زراعت ہے اور لگ بھگ اتنے ہی علاقے پر وسیع و عریض جنگلات قائم ہیں۔ ملاوی کی جھیل یہاں پانی کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسی کے کنارے پر غلاموں کی خرید و فروخت کا بہت بڑا مرکز تھا جو اب ایک طرح سے بندرگاہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ تمباکو، چائے اور گنّا یہاں کی نقد آور فصلیں ہیں۔ زرعی ترقی کے باعث ملاوی افریقہ کا واحد ملک ہے جو خوراک میں خود کفیل ہے۔ یہاں کی آبادی میں افریقا کی تقریباََ تمام زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ”چچوا“ یہاں کی مقامی و قومی زبان ہے اور کم و بیش دو تہائی اکثریت یہ زبان بولتی ہے۔ برطانوی سامراجی حکومت کی باقیات کے طور پر انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے اور پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت انگریزی سے بھی شناسا ہے۔
افریقی جنگلوں کی طرح یہاں بھی چیتے، شیر، ہاتھی اور زیبرے کثرت سے پائے جاتے ہیں اور کسی حد تک ان کے شکار کی اجازت بھی ہے۔
(مترجم: ڈاکٹر ساجد خاکوانی)