لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے بریگزٹ ڈیل کے حوالے سے رواں ہفتے کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر یورپی سربراہوں کو بریگزٹ معاہدے پر راضی کرنے کے لیے برسلز کا دورہ کریں گی۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی یونین کے اعلیٰ حکام سے دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کارکردگی برطانیہ اور یورپی یونین کے مستقبل کے تعلقات کا چہرہ بنائے گی۔
اسپین کا کہنا ہے کہ جب تک ہسپانوی جزیرے جبل الطارق پر گفتگو نہیں ہوگی وہ بریگزٹ معاہدے کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یورپی سربراہوں اور برطانوی وزیر اعظم کے مابین اتوار کو ہونے والی ملاقات سے قبل بریگزٹ ڈیل پر ممکنہ حل نکل سکتا ہے تاہم جرمن چانسلر نے اتوار کو ہونے والے یورپی سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اشارہ دیا ہے۔
ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ترجمان کے مطابق وزیر اعظم تھریسا مے نے ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سے گذشتہ روز گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ممالک اور جبل الطارق کی حکومت کے درمیان بات چیت اچھے انداز سے جاری ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ لندن اور برسلز برطانیہ کے 29 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے نکلنے کے مسودے پر راضی ہیں، 585 صفحات پر مشتمل دستاویزات میں شہری حقوق، مالی معاملات اور آئریش بارڈر کے مسائل بھی شامل ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اسپین نے کچھ عرصہ قبل ہی برطانیہ کے زیر اثر مقبوضہ جزیرے جبل الطارق کے دعویدار ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
مزید پڑھیں : ڈی یو پی تھریسامے کی حمایت سے منحرف، حکومت مشکلات کا شکار
خیال رہے کہ گذشتہ روز شمالی آئرلینڈ کی سخت گیر سیاسی جماعت ڈی یو پی نے تھریسامے سے طے شدہ معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے بجت ووٹنگ میں لیبر پارٹی کے حق میں ووٹ دیئے تھے جس کے بعد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ڈی یو پی کے اتحاد کے بغیر وزیر اعظم عوام سے بریگزٹ پلان منظور نہیں کرواسکتے۔
مزید پڑھیں : بریگزٹ پلان سے یورپی تارکین وطن کی آمد رک جائے گی، تھریسامے
یاد رہے کہ دو روز قبل برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے کہا تھا کہ بریگزٹ پلان سے یورپی تارکین وطن کی غیرضروری آمد کا سلسلہ رک جائے گا اور صرف ہنرمندی کی بنیاد پر ہی تارکین وطن کی آمد ممکن ہوسکے گی۔
برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ یورپی انجینئرز کو سڈنی کے انجینئرز یا دہلی کے سافٹ ویئر ڈیولپرز پر فوقیت حاصل نہیں رہے گی۔
واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم پر ٹوری پارٹی کے ممبران کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اس ڈیل میں تبدیلیاں لے کرآئیں ، بعض کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس ڈیل سے بہتر تھا کہ کوئی ڈیل نہ ہوتی۔