پاکستان کے عوام تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں جس میں روز افزوں اضافہ اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے معاشی اور مختلف معاشرتی مسائل کو بھی جنم دیاہے. لیکن ملک میں کئی ماہ سے جاری سیاسی افراتفری اور انتشار کے باعث عوام کے متفکر چہروں پر گزشتہ روز (23 جولائی) کچھ دیر کو سہی خوشی کے رنگ ضرور نظر آئے۔ لیکن یہ خوشی سیاست کے ایوانوں سے نہیں بلکہ کھیلوں کے میدان سے آئی ہے .ایک طرف اسکواش کے کھیل میں فتح ہمارا مقدر بنی ہےاور دوسری جانب پاکستان نے ایمرجنگ ایشیا کپ فائنل میں روایتی حریف بھارت کو ہرایا ہے۔
پاکستان جو کرکٹ، ہاکی، اسکواش، اسنوکر سمیت کھیلوں کے کئی مقابلوں میں عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز رکھتا ہے اور 1994 تو وہ تاریخی سال تھا جب پاکستان نے بیک وقت چار کھیلوں کے عالمی چیمپئن ہونے کا تاج اپنے سر پر سجایا تھا لیکن پھر کارکردگی خراب ہوتی چلی گئی اور ہم کھیلوں کے شعبے میں تنزلی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ کرکٹ میں تو پاکستان کی کارکردگی بہتر رہی لیکن ہمارے قومی کھیل ہاکی اور پاکستان کی پہچان اسکواش پر تو سمجھو جیسے طویل خزاں چھا گئی۔ اسکواش کے ذریعے روشن خان نے اپنے نام کی طرح جس طرح پاکستان کا نام روشن کیا اسی طرح ان کے بیٹے جہانگیر خان نے سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھا اور ان کے بعد جان شیر خان کی صورت میں نئی روشنی اس میدان میں جگمگائی۔ یہ وہ ادوار تھے کہ جب ان میں سے کوئی پاکستانی فیصلہ کن میچ میں اسکواش کورٹ میں اترتا تھا تو پھر ٹرافی اٹھائے بغیر وطن واپس نہیں آتا تھا۔ لیکن 1994 میں آخری بار چیمپئن بننے کے بعد یہ زمین بنجر ہوگئی۔ اس عرصہ میں کئی کھلاڑی آئے اور گئے لیکن اسکواش کے بنجر میدان کو زرخیز نہ کر سکے۔ 23 جولائی 2023 اس لیے یادگار رہے گا کہ اس روز 37 سال بعد پاکستان ورلڈ جونیئر اسکواش کا چیمپئن بنا۔
اس بار بھی پاکستان کا پرچم بلند کرنے والا خان یعنی حمزہ خان ہے جس نے آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں مصر کے محمد ذکریا کو تین ایک سے زیر کیا۔ حمزہ سے قبل 1986 میں سابق چیمپئن جان شیر خان نے یہ ٹائٹل اپنے نام کیا تھا جب کہ 2008 میں پاکستان کی جانب سے عامر اطلس نے ورلڈ جونیئر کا فائنل کھیلا تھا۔ اسکواش کے فائنل کے دوران کمنٹیٹر حمزہ خان کے بہترین کھیل پر داد اور ان کے ٹیلنٹ کو سراہتے رہے۔ ان کی جیت پر ایک کمنٹیٹر نے کہا حمزہ خان شو میں خوش آمدید، آج پاکستانی اسکواش کی واپسی ہوئی ہے۔ اس تاریخی موقع پر ضروری ہے کہ اسکواش کی جو پنیری دہائیوں بعد پنپنی ہے اس کی نشوونما کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں اور وزارت کھیل جامع منصوبہ بندی کرے تاکہ یہ خوشی عارضی ثابت نہ ہو بلکہ حمزہ خان مستقبل کا جہانگیر اور جان شیر ثابت ہو۔
پاکستان کو اسی روز خوشی کی دوسری خبر سری لنکا سے ملی جہاں کولمبو میں پاکستان اے ٹیم نے ایمرجنگ ایشیا کپ کے فائنل میں روایتی حریف بھارت کو دھول چٹا کر نہ صرف ٹرافی اٹھائی بلکہ اپنے اعزاز کا بھی کامیابی سے دفاع کیا۔ فائنل میں جب بھارت نے ٹاس جیتا تو یہی سمجھا کہ پہلے بولنگ کر کے ان کی ٹیم شاید ٹرافی جیت لینے کا خواب پورا کرلے گی لیکن ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوسکا۔
کولمبو میں بھی پاکستانی شاہینوں نے 2017 کی چیمپئنز ٹرافی کی طرح راؤنڈ میچ میں بھارت سے شکست کا دباؤ نہیں لیا بلکہ جب پاکستانی اوپنر میدان میں اترے تو ان کے تیور کچھ اور ہی اشارہ دے رہے تھے اور صائم ایوب اور صاحبزادہ فرحان نے پراعتماد اننگ کا آغاز کر کے اسے ثابت بھی کر دیا۔ دونوں نے 121 رنز کا ابتدائی آغاز فراہم کیا اور جب درمیانے اوور میں آدھی ٹیم کے پویلین لوٹنے پر خطرات کے بادل قومی ٹیم کے سر پر منڈلائے تو طیب طاہر نے اپنی شاندار بیٹنگ سے بھارتیوں کے ہوش و حواس اڑا دیے۔ پاکستان کے 353 رنز کے پہاڑ جیسے ہدف کے تعاقب میں بھارتی ٹیم کے اوسان ایسے خطا ہوئے کہ پوری ٹیم ہی 40 اوورز میں 224 رنز پر میدان بدر ہوگئی۔
ان کرکٹرز نے نہ صرف اپنے اعزاز کا کامیاب دفاع کیا بلکہ 2017 کی یاد بھی تازہ کر دی جب سرفراز احمد کی قیادت میں گرین شرٹس نے چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں بھارتی سورماؤں کا غرور خاک میں ملایا تھا۔ پاکستانی عوام بالخصوص روایتی حریف بھارت کو یوں بڑے مارجن سے فائنل جیسے مقابلے میں دھول چٹانے پر اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کے گُن گاتے نظر آرہے ہیں اور بہت مسرور دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی سینیئر ٹیم بابر اعظم کی قیادت میں رواں سال ایشیا کپ اور ورلڈ کپ بھی کھیلے گی۔ گرین شرٹس کی موجودہ کارکردگی دیکھ کر جہاں دنیائے کرکٹ پاکستان کو ایونٹس کے فیورٹ میں شامل کر رہے ہیں وہیں پوری قوم بھی دعا گو ہے کہ وہ پہلے ایشیا کپ جیت کر اس میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے بھارت کو کرارا جواب دے اور اس کے بعد بھارت جاکر ورلڈ کپ کی ٹرافی لائے اور دنیائے کرکٹ پر اپنی حکمرانی ثابت کرے۔