چند برسوں سے دنیا بھر میں جنوبی کورین فلمیں اور ویب سیریز شوق سے دیکھی جا رہی ہیں اور کچھ فلموں نے تو مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ویب سیریز اسکویڈ گیم (squid game ) انہی میں سے ایک ہے، جو ناظرین کے دلوں کو چُھو گئی ہے۔ اب تک کروڑوں لوگ اس ویب سیریز کو دیکھ چکے ہیں۔ یہ دنیا کے 93 ممالک میں نیٹ فلکس کے ٹاپ ٹین کے چارٹ میں نمبر ون پوزیشن پر رہی ہے اور اس وقت ہندی ڈبنگ کے ساتھ پاکستان اور انڈیا میں بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔
27 جون 2025ء کو اسکویڈ گیم کا پریمیئر ہوا ہے اور یہاں ہم اس ویب سیریز کے تیسرے اور آخری سیزن کا ریویو پیش کررہے ہیں۔
کہانی/ مرکزی خیال/ اسکرپٹ
اس ویب سیریز کی کہانی اور مرکزی خیال ہوانگ ڈونگ ہاؤک کا ہے، جو اس کے ہدایت کار بھی ہیں۔ خیال نیا نہیں ہے، لیکن اس کو ایک نئے انداز میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ ہوانگ ڈونگ ہاؤک کو ایک دہائی پہلے اس کا خیال آیا تو انہوں نے جنوبی کوریا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کو یہ کہانی سنائی، مگر کسی نے اسے لائقِ توجہ نہ سمجھا بلکہ یہ کہا گیا کہ کہانی میں دَم نہیں ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ یہ کہانی نیٹ فلیکس پر اب تک ریلیز ہونے والی ویب سیریز میں سب سے زیادہ مقبول کہانی ہے۔
کہانی نویس اور ہدایت کار ہوانگ ڈونگ ہاؤک نے جنوبی کوریا میں بچّوں کے ایک کھیل کے ذریعے جس طرح وہاں کے لوگوں کی زندگیوں کا عکاسی کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس ویب سیریز میں یہ بتایا ہے کہ کیسے عام لوگ مالی پریشانی کے ساتھ ذہنی اذیت اور مختلف منفی احساسات کے دباؤ میں آکر اپنی زندگی کو جہنّم بنا لیتے ہیں اور پیسہ کمانے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔
یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جنہیں ایک کھیل کو انعامی رقم جیتنے سے زیادہ اپنی بقا کے لیے کھیلنا پڑتا ہے۔ انہیں اس کھیل میں حصّہ لینے کا دعوت نامہ اچانک اور پراسرار طریقے سے موصول ہوتا ہے۔ کھیل ایک الگ تھلگ جزیرے پر ہوتا ہے اور شرکاء کو اس وقت تک بند رکھا جاتا ہے جب تک کہ کوئی کھیل کا حتمی فاتح بن کر سامنے نہ آجائے۔ اس کہانی میں 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں کے کوریائی بچوں کے مقبول کھیلوں کو شامل کیا گیا ہے، جیسے اسکویڈ گیم۔ اس میں جرم اور دفاع کے گھناؤنے کھیل کے لیے اسکویڈ کی شکل کا ایک بورڈ استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک ایسا کھیل، جو بظاہر سادہ سا ہے اور اس کے فاتح کو کروڑوں کی رقم بطور انعام دی جائے گی۔ اس مالی لالچ میں بہت سے معصوم لوگ بھی کھیل کھیل میں ایک دوسرے کی زندگیوں سے کھیلنے لگے ہیں۔ جیسے جیسے کھلاڑی جان سے جاتے جائیں گے، ویسے ویسے انعام کی رقم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ کھیل اسی گھناؤنے اور خوں ریز چکر کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ہر لمحہ میں، مقابلہ کرنے والوں کو اگلی اسٹیج پر جانے سے پہلے، اپنی موت کی طرف دھکیلنے کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ تیسرے زون میں کم از کم ایک شخص کو مارنے کے بعد، آخر میں جو بھی باقی رہے گا، وہ کروڑوں کی یہ رقم حاصل کرے گا۔ یہ انعامی رقم کس نے حاصل کی، یہ جاننے کے لیے آپ کو ویب سیریز squid game دیکھنا ہوگی۔
ہدایت کاری اور اداکاری
فلم کے ہدایت کار ہوانگ ڈونگ ہاؤک نے پہلے دو سیزن میں تو ناظرین پر اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا ایسا جادو جگایا کہ سب دیکھتے رہ گئے، لیکن تیسرے سیزن میں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے ذہن میں جو آئیڈیا تھا، اس کا رَس گزشتہ دو سیزن میں نچوڑا جا چکا ہے اور اب تیسرے سیزن کے لیے کچھ باقی نہیں بچا۔ کم از کم تیسرے سیزن کے معیار کو دیکھا جائے یہ اپنے پچھلے دو سیزن کا آدھا بھی نہیں ہے۔ انتہائی مایوس کن ہدایت کاری اور کہانی کا مرکب، جس میں پوری ویب سیریز میں کہیں کلائمکس نہیں دکھائی دے رہا، حتٰی کہ لوکیشنز کے لحاظ سے، سیٹ ڈیزائننگ کے اعتبار سے اور پروڈکشن کے دیگر پہلوؤں سے بھی اس کا جائزہ لیا جائے تو اسے ایک بدترین اور زبردستی بنایا ہوا سیزن تھری کہا جائے گا۔ اس ویب سیریز کو دو سیزن پر ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا۔
اداکاری کی طرف چلیں تو مرکزی اور معاون کرداروں کو سبھی فن کاروں نے بخوبی نبھایا ہے، لیکن تینوں سیزن میں مرکزی کردار ادا کرنے والے لی جانگ جے نے تیسرے سیزن میں بھی اپنی اداکاری کا معیار برقرار رکھا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ اداکاراؤں پارک گیو-ینگ اور کانگ ای شیم کے علاوہ نوجوان اور خوبرو اداکارہ جویوری نے بھی خوب اداکاری کی ہے۔آسڑیلوی اداکارہ کیٹ بلینچٹ بطور مہمان اداکار ویب سیریز کے چند مناظر جلوہ گر ہوئی ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر بھی اداکاری کے لحاظ سے سیزن تھری کو بہتر کہا جاسکتا ہے، البتہ یہ ناکام کہانی اور ناکام ہدایت کاری کا ایک نمونہ ہے۔
عالمی میڈیا اور مقبولیت کا ڈھونگ
عام طور پر کسی بھی فلم اور ویب سیریز کی کام یابی کے پیچھے میڈیا، بالخصوص فلم کے ناقدین کا بہت ہاتھ ہوتا ہے، لیکن ویب سیریز اسکویڈ گیم سے متعلق یہ تاثر گہرا ہے کہ اس کی اندھا دھند ستائش کی گئی، مگر جس قدر بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے، وہ معیار اس سیزن تھری میں کہیں دکھائی نہیں دیا بلکہ یہ بہت ہی بچکانہ معلوم ہوا۔ فلموں کی مقبول ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی نے اسے 10 میں سے 8 ریٹنگ دی ہے۔ نیویارک ٹائمز اور ٹائم میگزین نے بھی اس کی ستائش کر رہے ہیں۔ دیگر معروف فلمی ویب سائٹوں میں روٹین ٹماٹوز نے اسے 81 فیصد اور میٹکریٹ نے 66 فیصد بہترین قرار دیا ہے۔
اب اگر نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں شامل ہونے کی بات کریں تو اس کا پس منظر یہ ہے کہ لوگ وہاں ایک سیریز دیکھ رہے ہیں، اب وہ اچھی ہے یا بری، اس کا فیصلہ ناظرین کی تعداد کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا کہ زیادہ لوگوں نے دیکھا تو کوئی فلم یا ویب سیریز اچھی ہے۔ وہ بری، مایوس کن یا پست معیار کی بھی ہو سکتی ہے۔
حرفِ آخر
میری رائے ہے کہ اگر آپ اسکویڈ گیم کا سیزن تھری دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے پہلے دو سیزن ضرور دیکھ لیں جس سے آپ یہ جان سکیں گے کہ کس طرح سیزن تھری تک آتے آتے ویب سیریز نے اپنا معیار کھویا ہے۔ اس کا بنانے والوں کو بھی شاید اندازہ ہے اسی لیے اس کو آخری سیزن بھی قرار دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ گزشتہ دو سیزن کی مقبولیت کو نیٹ فلیکس نے اس تیسرے سیزن میں صرف کیش کیا ہے۔ اس طرح کاروباری سودا تو خوب خوب رہا، مگر معیار کے لحاظ سے یہ پست اور عامیانہ ہے، جسے دیکھنا میرے نزدیک وقت کا ضیاع ہے۔ اس سے کہیں زیادہ بہتر تو ہمارے پاکستانی ڈرامے ہیں، لیکن نیٹ فلیکس ہماری فلموں اور ویب سیریز کو اپنے پلیٹ فارم پر جگہ نہیں دیتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ جنوبی ایشیا (انڈیا) میں پڑوسیوں کی اجارہ داری ہے، کیونکہ نیٹ فلیکس کا جنوب ایشیائی ہیڈ آفس انڈیا میں ہے۔پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے انٹرٹینمنٹ کے اداروں کو متوجہ کرے، کیوں کہ پاکستان بھی نیٹ فلیکس کا بڑا گاہک ہے۔