تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

زمین سے ستاروں کا فاصلہ کیسے ناپا جاتا ہے ؟

اگر کبھی آپ کا شہر کی روشنیوں سے پاک کسی صحرائی یا پہاڑی علاقے میں جانا ہوا ہو تو رات کی تاریکی میں آپ نے آسمان کے ہر گوشے کو تاروں سے پٹا ہوا دیکھا ہو گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بظاہر ایک دوسرے سے بالکل ملے ہوئے ان تاروں کے درمیان کھربوں میل کا خلا پایا جاتا ہے ۔

اس بات کو یوں سمجھیں کہ سورج کا زمین سے فاصلہ تقریبا نو کروڑ میل ہے ۔ جبکہ سورج کے بعد جو قریب ترین ستارہ پایا جاتا ہے وہ تقریباً 250 کھرب میل کے فاصلے پر ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کائنات میں ستاروں کی حیثیت ذروں کی سی ہے اور ان کے درمیان موجود فاصلہ اور خلا ہمارے تصور اور گمان سے کتنا زیادہ ہے ۔


کائنات کے بارے میں حیران کن حقائق


 یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر زمین سے سورج اور دیگر ستاروں کے فاصلے کی پیمائش کس طرح کی گئی؟؟ کسی بھی ستار ے کی موجودگی کا پتہ ریڈیو ٹیلی سکوپ کی مدد سے لگایا جاتاہے۔

پھر اس کے زمین سے فاصلے کو ناپنے کے لیے بہت سی تکینک استعمال ہوتی ہیں جن میں سے ایک "ٹریگنومیٹری پیرالکس” کا طریقہ ہے جو چار سو نوری سال تک کے فاصلے کو ماپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

فاصلہ ناپنے کا تکنیکی طریقہ


عام فہم زبان میں اس کو سمجھانا چنداں مشکل کام ہے کیوں کے یہ ریاضاتی مس واتوں اور فارمولوں میں مشتمل ہوتا ہے۔ زمین کے سورج کے گرد گردش کا مدار186 ملین میل ہے۔تو جس ستارے کا فاصلہ معلوم کرنا ہو اس کوپہلےدوربین سے دیکھا جاتا پھر اسے دوبارہ چھ مہینے بعد دیکھا جاتا ہے۔

فلکیات دان اس کے دیکھنے کے زاویہ میں جو تبدیلی ہوتی اس کو نوٹ کر لیتے اور پھر ٹریگنومیٹری کے کلیوں کو استعمال کرتے ہوئیے اس ستارے کا زمین سے فاصلہ نکال لیتے ہیں۔

چار سو نوری سال سے زیادہ کے فاصلے کو ماپنے کے لیے ڈوپلر افیکٹ کی تکینیک استعمال کی جاتی ہے چھوٹی کلاسوں میں
اپ پڑھ چکے ہیں کہ سورج کی روشنی جب منشور (تکون شیشہ) سے گزرتی تو سات رنگوں میں بٹ جاتی ان سات رنگوں کی پٹی کو لائٹ سپکیٹرم ہیں۔

جس ستارے کا فاصلہ معلوم کرنا ہو اس کی روشنی کا سپیکٹرم لیا جاتا ہے‘ جس کے ریڈ شفٹ (ماہر فلکیات رنگوں میں آنے والی ظاہری تبدیلی کو ایک پیمانے پر جانچتے ہیں جسے ریڈ شفٹ کہا جاتا ہے) اور بلیو شفٹ پہ مشتمل ہوتا جو اس کی آصل چمک کی شدت بیان کر دیتا ہے۔

اس اصل شدت اور بظاہردوربین میں نظر آنے والی چمک کےمابین موازنہ کر کے ستارے کا زمین سے فاصلہ معلوم کر لیا جاتا ہے
ڈوپلر ایفکیٹ کائنات کی چابی ہے اور جس شخص نے اسے دریافت کیا جس کا نام ملٹن ہیموسن تھا۔

زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ کیسے ناپا گیا؟؟


برطانوی ماہر فلکیات ایڈمنڈ ہیلی نے 1716ء میں خیال پیش کیا تھا کہ زہرہ کے زمین اور سورج کے درمیان سے گزرنے کے فلکیاتی واقعے کو استعمال کرتے ہوئے سورج اور زمین کے درمیان بالکل درست فاصلہ ماپا جا سکتا ہے۔ لہٰذا 18 ویں صدی میں اس موقع پر پہلی مرتبہ سائنسدانوں کے درمیان پہلا اور تاریخی سائنسی تعاون دیکھنے میں آیا۔

قبل ازیں جرمن ماہر فلکیات جوہانس کیپلر 1619ء میں سورج اور زمین کے درمیان فاصلے کو ایک اکائی مقرر کرتے ہوئے نظام شمسی کے دیگر تمام سیاروں کا نسبتی فاصلہ معلوم کر چکے تھے۔ زمین اور سورج کے درمیان فاصلے کی اس اکائی کو ’ایسٹرونومیکل یونٹ‘ کا نام دیا گیا تھا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ کسی کو اس اکائی یا یونٹ کی درست قدر معلوم نہیں تھی، یعنی زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ کیا ہے؟ یہ بات تب تک کسی کو معلوم نہیں تھی۔

ہیلی کا فارمولہ


اس مقصد کے لیے ہیلی نے ایک فارمولا پیش کیا تھا جس سے یہ فاصلہ معلوم کیا جا سکتا تھا، تاہم اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ زمین کے مختلف حصوں سے زہرہ کے سورج کے سامنے سے گزرنے کے وقت کا بالکل درست دورانیہ معلوم کیا جائے۔

چونکہ ایسا موقع آنے سے قبل ہی ہیلی اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے، لہٰذا ماہرین فلکیات نے 1761ء اور 1769ء میں زہرہ کے زمین اور سورج کے درمیان سے گزرنے کے موقع پر سینکڑوں لوگوں کو اس واقعے کا درست دورانیہ معلوم کرنے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں روانہ کیا۔ ان سے حاصل ہونے والا ڈیٹا بعد ازاں ریاضی کی شاخ ٹریگنومیٹری کے کلیوں کی مدد سے زمین اور سورج کے درمیانی فاصلے کو ماپنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

یہ مہم دراصل پہلا موقع تھی کہ سائنسدانوں نے عالمی سطح پر مل کر کام کرتے ہوئے ایک مسئلے کا حل معلوم کیا۔ یہی چیز بعد ازاں ایسی سائنسی دریافتوں کے لیے ایک ماڈل بھی ثابت ہوئی۔


نوٹ: یہ تحریر سائنس کی دنیا نامی فیس بک پیج پر شائع کی گئی تھی‘ یہاں اسے معلوماتِ عامہ کے  فروغ کے جذبے کے تحت شائع کیا جارہا ہے۔

Comments

- Advertisement -