29 جون 1948ء کو صبح، دس بجے کا وقت تھا جب قائدِ اعظم کا طیّارہ ماری پور کے ہوائی اڈّے پر اترا۔ وہ کوئٹہ سے جس مقصد کے لیے کراچی آئے تھے، وہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل تھا۔
ہوائی اڈّے پر وزیرِ اعظم پاکستان، کابینہ کے وزرا سمیت اعلیٰ حکومتی عہدے داروں نے ان کا استقبال کیا۔ دراصل بانیِ پاکستان کو ایک افتتاحی تقریب میں شرکت کرنا تھا۔ یہ تقریب ایک منتظم اور سربراہِ مملکت کی حیثیت سے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے قائد کے منصوبے کی تکمیل کے لیے منعقد کی جارہی تھی۔
یکم جولائی کو منعقدہ اس تقریب میں شرکت کے لیے قائدِ اعظم گورنر جنرل ہائوس سے ایک بگھی میں سوار ہوکر پہنچے تھے۔ اس بگھی کے آگے چھے گھوڑے جتے ہوئے تھے جن کے ساتھ شوخ سرخ رنگ کی وردیوں میں ملبوس محافظ دستہ اور مستعدینِ رکاب نظر آتے تھے۔
قائدِ اعظم نہایت باوقار اور شاہانہ انداز میں اپنی منزل تک پہنچے۔ دنیا نے دیکھا کہ عزم و ہمّت کے پیکر، پختہ ارادے کے ارادے کے مالک محمد علی جناح کی مدبّرانہ قیادت، فہم و فراست اور دور اندیشی نے اس روز پاکستان کی آزاد معیشت کے خواب کو عملی شکل دی اور اسٹیٹ بینک کی عمارت کا افتتاح کیا۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد قائدِ اعظم اور حکومت نے جن بے شمار انتظامی مسائل سے نمٹنے کے لیے دن رات ایک کردیا تھا، ان میں ایک بڑا مسئلہ بینکاری بھی تھا۔ تاہم تقسیم کے فوراً بعد ہی قائدِاعظم کی ہدایت پر قومی مالیاتی ادارے کے قیام کی منصوبہ بندی شروع کردی گئی تھی اور 10 مئی 1948ء کو قائدِ اعظم نے سربراہِ مملکت کے طور پر اسٹیٹ بنک آف پاکستان کو افتتاح کے ساتھ ہی فعال و کار گزار بنانے کا حکم جاری کیا اور یکم جولائی کو نئی مملکت کی آزاد معیشت کی داغ بیل ڈال دی گئی۔
اس عظیم الشّان اور اہم و یادگار تقریب کے موقع بانی پاکستان نے کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے تاریخی تقریر فرمائی، اس تقریب میں مسلم ممالک کے نمائندے، دولتِ مشترکہ کے ارکان، امریکا اور روس کے سفیر اور متعدد ممالک کے صنعت و تجارت سے وابستہ اراکین بھی موجود تھے۔
قائدِ اعظم نے اپنی تقریر میں پاکستانی معیشت کے لیے اسلامی پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنے اور ایسے معاشرے کے قیام میں مددگار بننے پر زور دیا جو سب کے لیے سود مند ثابت ہو اور ایک مثالی اقتصادی نظام پیش کرے۔