لاہور : ملک میں شہریوں کے شناختی کارڈ کی کاپیاں بیچنے کا کاروبار عروج پر ہے، کس کا آئی ڈی کارڈ کب اور کہاں کس کے پاس نکل آئے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
جرائم پیشہ اور دھوکہ باز عناصر اپنے مقاصد اور وارداتوں کیلیے ایسے شناختی کارڈ ہی استعمال کرتے ہیں تاکہ پکڑائی کی صورت میں شناختی کارڈ کا اصل مالک قانون کی گرفت میں آئے۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے لاہور میں کامیاب کارروائی کی اور ایسے لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔
ٹیم سر عام نے آج کے پروگرام میں ایسے بھیانک رازوں کو فاش کیا کہ جس کو دیکھ کر ہر پاکستانی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے گا کیونکہ شناختی کارڈ کی کاپیاں فروخت کرنا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔
سب سے خطرناک بات یہ سامنے آئی کہ بینک ملازمین بھی صارفین کے شناختی کارڈ کی کاپیاں فروخت کررہے تھے، ٹیم سرعام نے ایک ایسے ہی محمس رمضان نامی ملازم سے وہ کاپیاں خریدی تھیں۔
پہلے تو اس نے یہ کام کرنے سے انکار کیا لیکن تھوری سی پس و پیش کے بعد اس کو اپنے جرم کا اعتراف کرنا پڑا۔ بینک منیجر سے بات کرنے پر انہوں نے اس بات کو سنجیدگی سے سنتے ہوئے اس شخص کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔
اس کے علاوہ موبائل فون کمپنی کے مائیکرو فنانس بینک کا افسر شہباز احمد بھی اسی جرم کا مرتکب تھا، اس نے بھی انتہائی بے شرمی سے اپنے اس جرم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔
مزید پڑھیں : جعلی شناختی کارڈ بنانے میں ملوث نادرا کے سابق افسران گرفتار
اس سے زیادہ خطرناک بات یہ سامنے آئی کہ اس چوری شدہ شناختی کارڈز سے مائیکرو فنانس بینک کے اکاؤنٹس باآسانی بنائے جاسکتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موبائل ایپلی کیشنز نے بھی شناختی کارڈ پر کسی اور کے فنگر پرنٹس کو ویری فائی بھی کردیا۔ یہ صورتحال نادرا اور موبائل فون کمپنیوں کیلیے سوالیہ نشان ہیں۔