ہفتہ, مئی 24, 2025
اشتہار

خواب بیچنے والا (ایک دل چسپ کہانی)

اشتہار

حیرت انگیز

وہ ایک عام آدمی تھا لیکن کبھی کبھی قسمت عجیب کھیل کھیلتی ہے اور عام سا کوئی شخص حیرت انگیز اور ناقابل فراموش کردار بن جاتا ہے۔ وہ تاجر تھا مگر خواب بیچنے والا۔ کہتے ہیں کہ یہ بہت پہلے کی بات ہے جب بادشاہوں کا دور ہوا کرتا تھا۔ بادشاہ جو خواہش کرتے پوری ہوتی لیکن کبھی انھیں ناکامی بھی ہوتی۔ اس سے بادشاہ پر کھلتا کہ وہ مقدر کے لکھے کو نہیں‌ ٹال سکتا اور ہر چیز جو چاہتا ہے، اس کا حصول بھی ممکن نہیں۔

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

وہ عام آدمی تاجر کے روپ میں ایک سفر پر نکلا اور کسی مقام پر قیام کی غرض سے رکا۔ ’کیا بندہ کو رات قیام کا سکون میسر ہو گا؟‘‘ گھوڑے سے اترتے ہوئے مسافر نے سرائے کے مالک سے دریافت کیا۔

’ضرور ملے گا۔ گھوڑے کو اصطبل میں چھوڑ دو اور میرے ساتھ آؤ۔‘‘ بزرگ سے دکھائی دینے والے شخص نے مسافر کو اسی لہجے میں جواب دیا اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ بھی کر دیا۔

’’تم یہاں بیٹھو۔‘‘ سرائے مالک نے مسافر کے لیے پلنگ کا انتظام کر دیا تھا۔

’’کہاں سے آرہے ہو میاں ‘‘ لمبی سی داڑھی اور سفید جُبّے میں ملبوس شخص نے مسافر سے دریافت کیا۔

’’جی میرا نام انور ہے اور میں یمن سے نکل کر اب مرشد آباد جا رہا ہوں واسطے تجارت کے۔‘‘ مسافر نے اپنا تعارف کرایا۔ وہاں چند اور لوگ بھی موجود تھے جو رات گزارنے رکے تھے۔ خاموشی ہوئی تو ایک نے دوسرے کو کہا۔

’’ہاں تو بھائیو سنو میں نے رات ایک بڑا حسین خواب دیکھا۔‘‘ ایک شخص نے کہا۔

’’ضرور کوئی حسینہ نے دل دیا ہو گا۔‘‘ اس کے ساتھی نے مذاق اڑایا لیکن پھر پوچھا۔ ’’اچھا بتاؤ کہ تم نے کیا دیکھا۔‘‘

دوسرے نے کہا ’’میں نے دیکھا کہ میں ایک خوبصورت مکان کے لان میں نرم گھاس پر لیٹا ہوا ہوں۔ میرے اوپر چاند اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جھکا ہوا ہے اور میری بغل میں سورج بیٹھا مجھے نہار رہا ہے۔ ‘

اس کی بات سن کر دوست نے پھر مذاق اڑایا مگر اچانک اس انور نامی تاجر نے جو ابھی سرائے میں آیا تھا اس سے کہا۔ ’’بھائی میں ایک تاجر ہوں اور میں تم سے تمہارا یہ حسین خواب خریدنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’لیکن خواب بھی کہیں فروخت ہوتے ہیں میاں۔‘‘ اس شخص نے قدرے حیرانی سے کہا۔

’’بس آپ ہاں کر دیں۔ مجھے آپ سے یہ خواب خریدنا ہے۔ جو قیمت کہو دوں گا۔‘‘ انور کو نجانے کیا ہوگیا تھا

’’ٹھیک ہے مابدولت نے یہ خواب تمھیں ایک ہزار اشرفیوں میں فروخت کیا۔‘‘ سچ مچ انور نے اپنی انٹی میں لگی تھیلی سے ایک ہزار اشرفیاں گن کر اس کو دے دیں۔

’’اب یہ خواب میرا ہو گیا۔‘‘ وہ دونوں اسے پاگل سمجھ رہے تھے۔ اور پھر وہ سب سو گئے۔

صبح اٹھ کر انور تازہ دم گھوڑے پر سوار ہو کر چل دیا اور شام ہوتے ہوتے اپنی منزل پہنچ گیا۔ مرشدآباد پہنچ کر وہ سیدھا بازار پہنچا اور اس نے اونچے چبوترے پر کھڑے ہو کر اعلان کیا۔

’’میں انور ہوں خوابوں کا سوداگر۔ آؤ اور مجھ سے جیسا چاہو خواب خرید لو۔ ایک خواب میں‌ راستے میں خریدا تھا وہ بہت خوب صورت خواب ہے لیکن وہ صرف میرا خواب ہے…‘‘ اتنا عجیب و غریب اعلان تھا کہ اس کے چاروں طرف بھیڑ جمع ہو گئی۔

’’چاہیے کسی کو کوئی بہترین خواب جو سچ ہو جائے۔‘‘ انور آواز لگاتا رہا اور مجمع میں کانا پھوسی ہونے لگی۔ ادھر ملک کے بادشاہ کو خبر ہوئی تو وہ حیران ہوا۔ اس نے اپنے مشیروں اور نجومیوں کو فوراً طلب کر کے اس بابت دریافت کیا۔

’’بادشاہ حضور آپ خوابوں کے تاجر سے وہ خواب خرید لیں جو اس نے مرشد آباد آتے وقت خریدا تھا۔‘‘ بادشاہ کے ایک قابل نجومی نے بادشاہ کو مشورہ دیا۔

’’وہ خواب اگر آپ خریدنے میں کامیاب رہے تو آپ کی منھ مانگی مراد پوری ہو جائے گی۔‘‘ نجومی نے بادشاہ کے تجسس کی آگ بھڑکا دی۔ یہ نجومی اسی طرح بادشاہ کو خوش کرتے تھے۔

بادشاہ خود بازار گیا اور انور سے خود خواب فروخت کرنے کی درخواست کی۔

’’لیکن میں وہ خواب آپ کو فروخت نہیں کر سکتا۔ وہ میں نے اپنی تجارت کے لیے نہیں بلکہ اپنی خواہش کے لیے خریدا ہے۔‘‘

’’لیکن مجھے وہی خواب چاہیے۔‘‘

’’آپ کوئی دوسرا خواب لے لیں بادشاہ حضور۔ میرے پاس اور بھی بہت سے اچھے خواب ہیں۔‘‘

’’اگر تم مجھے وہ خواب فروخت نہیں کرو گے تو میں تم کو گرفتار کروا کر جیل بھیج دوں گا۔‘‘ بادشاہ سراج الدین کی نا سے بے حد خفا ہو گیا تھا۔

’’بادشاہ حضور مجھے معاف فرمائیں …‘‘

’’گرفتار کر لو اسے اور تب تک قید میں رکھو جب تک کہ یہ اپنا خواب فروخت کرنے کو راضی نہ ہو جائے۔‘‘

’’رحم حضور …رحم…‘‘

سپاہیوں نے بادشاہ کے حکم کی تعمیل کی۔ وہ تاجر کو گرفت میں لے کر شاہی محل کی طرف چل پڑے۔ لوگ سوچ رہے تھے کہ یہ تاجر تو بادشاہ سے بھی گیا گزرا معلوم پڑتا ہے بھلا وہ خواب فروخت کرنے کیوں تیار نہ ہوا۔

سراج الدین تاجر کو لے کر سپاہیوں کا جتھا شاہی محل میں پہنچا۔ وہ قید خانے کی طرف جاہی رہے تھے کہ راستے میں شاہی باغ پڑا۔ باغ میں گلاب کے درخت کے قریب کھڑی ایک بے مثال حسن کی دیوی پر یکایک تاجر کی نگاہ پڑ گئی۔

’’آہ…بے مثال‘‘ تاجر کے منھ سے نکلا۔ اس پر سپاہیوں نے بتایا کہ وہ بادشاہ کی ہونے والی رانی ہیں۔‘‘

’’اوہ…لیکن یہ اتنی اداس کیوں ہے اور اس کے گرد سخت پہرہ کیوں ہے۔‘‘

’’اس نے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بادشاہ سے شادی نہیں کر سکتی۔ ‘‘
’’کیا…کیا خواب دیکھا ہے اس نے۔‘‘ تاجر محو حیرت تھا۔

سپاہیوں کے سربراہ نے تاجر کے دو ہتھڑ جمایا تو وہ لڑکھڑا کر گر گیا۔

’’اسے کیوں مارا جا رہا ہے۔‘‘ حسن کی دیوی نے سیدھے سپاہیوں کے قریب آ کر سوال کیا۔
’’ملکہ حضور …یہ بادشاہ سلامت کا قیدی ہے اور آپ کے خواب کے بارے میں کلمات بول رہا تھا۔‘‘ ایک سپاہی نے جواب دیا۔

’’میرا نام پارس ہے۔ تم کون ہو اجنبی۔ لگتا ہے میں نے تمھیں کہیں دیکھا ہے۔‘‘ حسن کی دیوی نے تاجر کا بغور جائزہ لیا۔

’’میرا نام انور ہے، اور میں خوابوں کا تاجر ہوں۔‘‘

’’چلو چلو اسے لے جا کر قید خانے میں ڈال دو۔‘‘ ایک سپاہی نے ہانک لگائی۔ انور کو لے جا کر قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔ تاجر کو قید ہوئے پورے ایک ہفتے کا وقت گزر چکا تھا۔ تاجر کو اب فکر کھائے جا رہی تھی کہ اگر وہ یہاں سے نہ نکل سکا تو اس کا خواب کیسے پورا ہو گا۔ بھلا ایک ہزار اشرفیاں کیا وہ یوں ہی ضائع ہو جانے دے گا۔ ان ہی خیالات میں گم وہ قید خانے کے جالی دار دروازے پر پالتی مارے بیٹھا تھا کہ گھنگھرو کی طرح بجتی نرم و نازک نسوانی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

’’کس سوچ میں گم ہو سوداگر۔‘‘

’’آپ…ملکہ حسن اور …یہاں ‘‘ وہ پارس ہی تھی۔

’’ہاں …تم خوابوں کی تجارت کرتے ہو نا‘‘ پارس کی مترنم آواز اس کے کانوں میں شہد گھول رہی تھی۔

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ …‘‘ انور کو اب بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ پارس اس کے اتنے قریب موجود ہے۔ وہ تو اسے دیکھنے کے بعد ہی اس کا اسیر ہو چکا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح اس سے گفتگو کا موقع ملے۔

’’میں بھی تم سے ایک خواب خریدنا چاہتی ہوں سوداگر۔‘‘

’’کیا…لیکن آپ تو خود سراپا خواب ہیں پھر آپ کو کسی خواب کی کیا ضرورت۔‘‘

پارس کھلکھلا کر ہنس پڑی لیکن ایک دم سے سنجیدہ ہو گئی۔ ’’کیا تم مجھے ایک خواب دو گے۔‘‘ اس نے اصرار کیا۔

’’کون سا خواب چاہتی ہو۔ میرے پاس تو بہت سے خواب ہیں۔‘‘

’’عام سی لڑکی ہوں بہت عام سی سوچ ہے میری، ایک گھر ہو دریچہ ہو اور پھول سا بچہ ہو۔‘‘ پارس نے گنگنا کر خواب بتایا۔

’’لیکن تم مجھ سے اور بھی اچھا خواب مانگ سکتی ہو…‘‘

’’نہیں مجھے صرف اتنی ہی خواہش ہے۔‘‘

’’لیکن تم تو بادشاہ کی رانی بننے جا رہی ہو تو پھر یہ خواب…‘‘

’’نہیں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔‘‘ پارس نے بے حد سختی سے انکار کیا تو انور خاموش ہو گیا۔

’’بولو خواب فروخت کرو گے۔‘‘

’’ہاں- یہ خواب تو میرے پاس ہے اور میں تمھیں ابھی اسی وقت یہ خواب سونپتا ہوں۔ ‘‘

’’شکریہ میرے محسن…اور اس کی قیمت…‘‘

’’یہ میں نے تحفتاً تمھیں دیا ہے ‘‘ سوداگر نے کہا تو پارس کی ہرنی جیسی آنکھوں نے خاموشی کے ساتھ اظہار تشکر کیا۔ پھر پارس پلٹی اور واپس چلی گئی۔

تاجر کو قید ہوئے ایک ماہ گزر گیا تھا۔ اس کی داڑھی مزید بڑھ گئی تھی، کھانا پیٹ بھر نہ کھا سکنے کی وجہ سے جسم بھی قدرے کمزور ہو گیا تھا۔ اس کے کپڑے بھی میلے تھے۔ اسے آج بادشاہ نے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔

’’کیا کہتے ہو تاجر…کیا تم اپنا خواب فروخت کرو گے۔ تمھیں منھ مانگا دام ملے گا۔‘‘ بادشاہ کے مشیر خاص نے اونچی آواز میں تاجر سے کہا۔

’’میرا فیصلہ اب بھی وہی ہے بادشاہ حضور۔‘‘

’’کیا بکتے ہو۔ ‘‘ بادشاہ کا غصہ پھٹ پڑا۔ ’’تم دو ٹکے کے سوداگر تمہاری یہ مجال کہ تم میری حکم عدولی کرو۔‘‘

’’لیکن بادشاہ سلامت صرف اسی خواب کو کیوں خریدنا چاہتے ہیں جب کہ میرے پاس …‘‘

وزیر اعظم نے تاجر کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’بادشاہ سلامت پارس کو اپنی رانی بنانا چاہتے ہیں لیکن وہ منع کرتی ہے۔ اگر تم وہ خواب بادشاہ کو دے دو تو پارس بادشاہ کے رشتہ میں آسکتی ہے۔ کیوں کہ دنیا میں اگر چاند کے مشابہ کوئی ہے تو وہ پارس ہی ہے۔‘‘

’’وزیر اعظم کی بات پر تاجر کا سر چکرا گیا۔ وہ جانتا تھا کہ عشق کے معاملات میں بادشاہ کبھی ہار ماننے والا نہیں۔ اسے اب اپنی زندگی تاریک نظر آنے لگی۔ اسے لگا کہ یا تو اب اس کی زندگی ختم ہوئی یا پھر اس کا خواب ٹوٹا۔

اچانک اسے یاد آیا کہ پارس تو اس سے عام لڑکی بننے کا خواب خرید چکی ہے تو بھلا وہ بادشاہ کی رانی کیسے بن سکتی ہے۔

’’لیکن بادشاہ حضور گستاخی معاف۔پارس تو مجھ سے پہلے ہی عام سی لڑکی ہونے کا خواب خرید چکی ہے۔ اس لیے اب بھلا وہ کیسے رانی بن سکتی ہے۔‘‘

’’کیا…کیا کہا تم نے۔‘‘ مشیر خاص اور بڑے نجومی نے ایک ساتھ کہا تو بادشاہ بھی مایوس ہو کر دھم سے سنگھاسن پر گر پڑا۔

’’ہاں وہ تو پہلے ہی عام لڑکی کا خواب مجھ سے لے چکی ہے۔‘‘

’’تب تو بادشاہ حضور یہ خواب خریدنے سے آپ کو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔‘‘ نجومی نے مدھم آواز میں بادشاہ سے کہا اور ہاتھ باندھ کر گردن جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

’’ٹھیک ہے تاجر کو آزاد کر دیا جائے اور اسے ایک ہزار ایک سو اشرفیاں دے کر وداع کر دو۔‘‘ بادشاہ بے حد غمزدہ تھا۔ ’’اور پارس…‘‘ بادشاہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔ ’’پارس عام زندگی چاہتی ہے نا…تو…اس کی شادی اسی تاجر سے کر دی جائے۔‘‘ بادشاہ نے بے حد ہلکی آواز میں حکم دیا اور اٹھ کر آرام گاہ میں چلا گیا۔

سراج الدین کو تو جیسے منھ مانگی مراد مل گئی تھی اس نے بادشاہ سے اشرفیاں وصول کیں اور پارس کے خیالوں میں گم ہو گیا۔ پارس کی رفاقت میں انور بے حد خوش اور مطمئن تھا اسے ایک سال کب گزرا پتہ ہی نہ چلا۔ پارس نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا۔ اس نے دونوں کی زندگی کو زیادہ گلزار کر دیا تھا۔

(مرسلہ : احمد اقبال، ایک ہندی کہانی سے ماخوذ)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں