اشتہار

ساتویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

"یہ کیا ہے؟” وہ ان دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جھکی اور کتاب اٹھا لی۔ کتاب پوش چمڑے کا تھا۔ اٹھاتے ہی اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جھڑنے لگے۔ فیونا کتاب لے کر فرش پر بیٹھ گئی اور اسے کھول کر دیکھنے لگی۔ جبران اس کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ "یہ کون سی زبان میں لکھی گئی ہے، کیا تم اسے پڑھ سکتی ہو؟”

تینوں کی آنکھیں کتاب پر جمی ہوئی تھیں۔ ایسے میں دانیال بولا۔ "یہ تو مجھے ویسی ہی زبان لگ رہی ہے جیسی لائبریری کی باہر والی دیوار پر لکھی گئی ہے۔” فیونا بولی۔ "یہ اسکاٹ لینڈ کی قدیم مقامی زبان گیلک ہے، مجھے تھوڑی سی پڑھنا آتی ہے یہ زبان، تاہم میری ممی زیادہ بہتر طور پر جانتی ہیں۔”

- Advertisement -

دانیال نے مشعل قریب کر دی۔ اس کی روشنی میں فیونا کی سبز مائل نیلی آنکھیں عجیب طرح سے چمکنے لگیں۔ وہ مزید جھک کر پڑھنےکی کوشش کرنے لگی۔ چند لمحوں بعد اس نے کہا۔ "میں اس میں سے چند الفاظ پڑھ سکتی ہوں، یہ لکھا ہے آیونمھاس …. یہ گیلک زبان میں خزانے کو کہتے ہیں۔ یہ کسی خزانے کے بارے میں کچھ لکھا ہے لیکن یہ بے حد پرانا ہے، اسے پڑھنا بہت مشکل ہے۔”

"خزانہ…!” جبران کی نقری بھوری آنکھوں میں چمک آ گئی۔ وہ جوش سے بولا۔ "کیا اس میں کوئی نقشہ وغیرہ ہے؟”

"میں کچھ کہہ نہیں سکتی، کیوں کہ اس میں چیزیں واضح نہیں ہیں۔” فیونا نے جواب دیا۔ جبران جلدی سے بولا۔ "تم نے ایک بار اپنے انکل اینگس کا ذکر کیا تھا، کیا وہ گیلک نہیں پڑھ سکتے؟”

"کیوں نہیں۔ وہ ماہر ہیں۔ وہ اور میرے پاپا ایک ساتھ گیلک پڑھ چکے ہیں۔” فیونا نے جواب دیا۔

"تو پھر چلو، یہ کتاب ان کو دے کر معلوم کرتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟” جبران نے کتاب لے کر کوٹ کے بٹن کھولے اور اسے اندر رکھ کر بٹن بند کر کے کوٹ کو پینٹ میں اڑس لیا، تاکہ کتاب نیچے سے نکل نہ جائے، اور پھر چاقو بھی لے کر اپنے اونی موزے میں اڑس لیا۔ تینوں واپس محرابی دروازے پر پہنچ گئے۔ دانیال نے مشعل کے سرے پر پاؤں مار کر اسے بجھا دیا اور واپس اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا کیوں کہ انھیں اس کی دوبارہ ضرورت پڑھ سکتی تھی۔ فیونا کشتی میں بیٹھ کر بولی۔ "جبران، میں نے ابھی تک ایک بھی تیتر نہیں دیکھا، تم اپنے پاپا سے ضرور کہنا کہ مسٹر لیمنٹ کو کچھ پتا نہیں ہے۔”

جبران منھ بنا کر بولا۔ "ہاں ہم نے کوئی ایک عفریت بھی تو نہیں دیکھا، بے حد مایوسی ہوئی!” تینوں ہنس پڑے۔ سورج غروب ہو رہا تھا، اس کے شعلوں ایسا رنگ جھیل کے پانی پر منعکس ہو رہا تھا۔ دوسری طرف اترنے کے بعد انھوں نے کشتی اس کی مخصوص جگہ پر درخت سے باندھ دی اور ایک بار پھر کتاب کو دیکھنے لگے۔ جبران نے کتاب نکال کر فیوناکے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ "فیونا، یہ تم گھر لے جاؤ، کیوں کہ میں اسے اپنے گھر میں چھپا نہیں سکتا۔ میری ممی اور پاپا اسے دیکھ لیں گے۔ اگر انھوں نے نہیں دیکھا تو عرفان اور سوسن سے چھپی نہیں رہ سکے گی۔ کل ہم اسکول کے بعد تمھارے انکل اینگس کو دیکھنے جائیں گے۔”

تینوں گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا کا گھر زیادہ قریب تھا۔ جبران اور دانیال اس سے ہاتھ ملا کر گھر کی طرف دوڑ پڑے، کیوں کہ انھیں بہت دیر ہو چکی تھی۔ فیونا گھر میں داخل ہوئی تو اس کی ممی باورچی خانے میں مچھلی تل رہی تھیں۔ "فیونا، جاؤ ہاتھ دھو کر آؤ، مچھلی تیار ہے۔ نئے دوستوں کے ساتھ ایڈونچر کیسا رہا؟” انھوں نے باورچی خانے ہی سے ہانک لگائی۔

"زبردست ممی!” اس نے کہا اور دوڑ کر اپنے کمرے میں گئی۔ کتاب اپنے بستر کے نیچے چھپا دی اور پھر ہاتھ دھو کر باورچی خانے میں داخل ہو گئی۔ "ہم م م … اچھی خوش بو ہے۔”

"بیٹھ جاؤ یہاں اور مزے لے لے کر کھاؤ۔” مائری بولیں اور ایک چھوٹی طشتری میز پر رکھ دی۔ "پتا ہے آج میں نے تمھارے لیے خصوصی میٹھا بھی تیار کر رکھا ہے۔” فیونا کی آنکھوں میں یہ سن کر چمک آ گئی۔ وہ چہک کر بولی۔ "ضرور آپ نے مارزیپن تیار کیا ہے، کیوں کہ آپ کو پتا ہے بادام، چینی اور انڈوں سے تیار کیا جانے والا یہ کھیر مجھے بہت پسند ہے۔”

مائری مسکرا دیں۔ "پتا ہے، آج میری ملاقات ایک دل چسپ آدمی سے ہوئی۔”

"کیا وہ واقعی دل چسپ شخص تھا؟” فیونا نے مچھلی کھاتے ہوئے بے کار سوال کر دیا۔ مائری نے سنجیدگی سے کہا۔ "اس کا نام جونی تھامسن ہے، اور وہ لندن سے یہاں آیا، جلد ہی اس کا بھائی اس سے ملنے والا ہے، وہ دونوں یہاں ایک ہفتے تک رہیں گے اور مچھلیوں کے علاوہ دیگر شکار بھی کھیلیں گے۔ میں نے اسے جبران کے ڈیڈ کے پاس بھیج دیا۔”

"آہا مما، یہ تو بڑی دل چسپ کہانی ہے، سچ مچ میں دل چسپ آدمی لگ رہا ہے۔”

"تم یہ مچھلیاں اور کھیر کھاؤ، اب تھامسن کے متعلق اور کوئی با ت نہیں ہوگی۔” وہ اچانک درشت لہجے میں بولیں۔

رات کو جب مائری اینا فرگوسن مک ایلسٹر اپنے بستر پر لیٹیں، تو باہر خزاں کے آغاز کی ہوائیں شور مچا رہی تھیں۔ وہ شہر کے لیے اپنے سفر کے متعلق سوچتے سوچتے سو گئیں۔دوسرے کمرے میں فیونا بستر پر لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئی تھی۔ وہ قدیم جادوؤں، بونوں اور دور دراز کے علاقوں کے خواب دیکھنے لگی۔

(جاری ہے…)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں