نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
فیونا نے دماغی رابطے کے ذریعے ٹائیگر کو مخاطب کیا: ’’ٹائیگر، اسے مت کھاؤ، وہ تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ ٹائیگر دانیال کو چھوڑ کر فیونا کی طرف مڑا اور شعلہ بار نظروں سے اسے گھورنے لگا۔ جبران سے رہا نہ گیا، اس نے ایک بار پھر مداخلت کی: ’’فیونا کیا تم اس سے باتیں کر رہی ہو۔‘‘
’’ہاں، لیکن تم ذرا چپ رہو۔‘‘ فیونا نے کہا اور پھر ٹائیگر کو مخاطب کیا: ’’ہم تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے اور نہ تم ہمیں نقصان پہنچاؤ۔ ہمیں صرف زمرد چاہیے اور میں جانتی ہوں کہ وہ یہاں گلیشیئر کے اندر ہے۔‘‘
’’اور میرا کام تمھیں اسے حاصل کرنے سے روکنا ہے۔‘‘ ٹائیگر نے غرا کر جواب دیا۔ ’’مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ فیونا کو اپنے دماغ کے اندر اس کی آواز گونجتی محسوس ہوئی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس نے ایک لمبا عرصہ انتظار کیا، اب آخرکار کوئی تو اس کی تلاش میں آ گیا ہے۔ فیونا نے بتایا کہ زمرد جس شخص نے چھپایا تھا وہ اس کا دوست ہے اور اسی نے بھیجا ہے، کیوں کہ کچھ شیطان قسم کے لوگ بھی اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس لیے اب وہ یہ قیمتی پتھر دنیا بچانے کے لیے نکالنے آئے ہیں۔
فیونا کی باتیں نوکیلے دانتوں والے اس عظیم الجثہ درندے کو احمقانہ لگیں، اس نے کہا: ’’تم تو محض بچے ہو، اور دنیا کو بچانے کی باتیں کر رہے ہو۔‘‘
فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے ہم بچے ہیں لیکن اگر تم اپنے دل سے پوچھو تو تمھیں جواب ملے گا کہ میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں۔‘‘ ٹائیگر آہستگی سے ان کے قریب آیا، جبران پر گبراہٹ طاری ہو گئی اور بولا: ’’فیونا یہ درندہ ہمیں کھانے آ رہا ہے، ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے۔‘‘
فیونا نے سرگوشی کی: ’’چپ چاپ کھڑے رہو، حرکت بالکل مت کرنا، پلکیں بھی مت جھپکانا، بس زمین کی طرف دیکھتے رہو اور اس کی طرف توجہ مت کرو۔‘‘
ٹائیگر تنگ آ کر بولا: ’’بہت باتیں ہو گئیں، مجھے حکم دیا گیا تھا کہ ہر حال میں قیمتی پتھر کی حفاظت کروں۔ میں کسی کو بھی اس کے قریب آنے نہیں دوں گا، چاہے کچھ بھی ہو جائے، اور میں تمھیں بھی اسے لے جانے نہیں دوں گا۔‘‘
یہ سن کر فیونا کا دماغ تیزی سے کوئی ترکیب سوچنے لگا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ ٹائیگر ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے۔ اس دوران ٹائیگر ایک جست کے ساتھ جبران کے سامنے آیا اور اپنا بڑا سا منھ کھولا۔ فیونا کے لیے مزید سوچنے کا وقت نہیں رہا تھا، اس نے اپنی جسامت بڑھائی اور ذرا سی دیر میں دیو قامت بن گئی۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹائیگر کو گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور اپنے چہرے کے قریب لا کر بولی: ’’میں تمھیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتی کیوں کہ میں دوست ہوں، مجھے زمرد حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور تم نے مجھے یہ کرنے پر مجبور کیا۔ پھر بھی میں تمھیں جان سے نہیں ماروں گی لیکن تمھیں یہاں سے بہت دور لے جاؤں گی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ جبران اور دانیال کی طرف جھک کر بولی: ’’تم دونوں زمرد کھود کر نکالو، میں ٹائیگر کو بہت دور لے جا کر چھوڑ دوں گی اور کچھ ہی دیر میں لوٹ آؤں گی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اسے لے کر گلیشیئر کی بلندی پر چلی گئی۔ وہاں اس نے ٹائیگر کو چھوڑ کر کہا:’’مجھے قیمتی پتھر ضرور حاصل کرنا ہے کیوں کہ بہت سارے لوگ خطرے میں پڑ جائیں گے، تم ایسا کرو کہ طرف کے زمانے میں لوٹ جاؤ، میں اس آئس ایج کی بات کر رہی ہوں جس سے تمھارا تعلق ہے۔‘‘
لیکن ٹائیگر غصے کے مارے گرج رہا تھا اور بے بس تھا۔ وہ اسے وہاں چھوڑ کر واپس آئی تو ان دونوں نے ابھی وہ جگہ نہیں کھودی تھی۔ فیونا نے دونوں کو وہاں سے ہٹا کر زور سے ایک ہاتھ مارا اور برف توڑ دی۔ جب اس نے برف کے اندر سے ہاتھ باہر نکالا تو زمرد اس کی انگلیوں میں دبا ہوا تھا اور وہ پھر نارمل قد و قامت میں آ گئی۔
(جاری ہے…)

Comments