کراچی: اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے وفاقی تحقیقاتی ادارے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ساتھ مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے ایجنٹ اورگروہ کو بے نقاب کر کے گرفتار کروا دیا۔
فضل نامی ایجنٹ خواتین کو ملازمت کا جھانسہ دے کر اُن سے آن لائن اسٹریمنگ کے نام پر نازیبا حرکات کرواتا اور اپنی جنسی خواہشات بھی پوری کرتا تھا۔
سرعام کی ٹیم کو شکایات موصول ہوئیں تھیں کہ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں واقع ایک دفتر میں بھارتی اسٹریمنگ ایپ ’اسٹریم کر‘ کو سروسز فراہم کرنے کا کام کیا جارہا ہے، جس کا ایجنٹ خواتین کو ملازمت دینے کے نام پر ہراساں کرتا ہے اور اپنے جنسی مطالبات منواتا ہے۔
سرعام کی ٹیم نے شکایات موصول ہونے کے بعد اسٹنگ آپریشن کے لیے ایک خاتون رضاکار کو ملازمت کے لیے دفتر بھیجا۔
فضل نے خاتون کو بتایا کہ اُسے اسٹریمنگ ایپ پر ’مردوں کو خوش‘ کرنے کا کام کرنا اور اُن سے پیسوں کا مطالبہ کرنا ہے جس پر وہ ایپ کے ذریعے ڈائمنڈز کی صورت میں تحائف دیں گے۔
سرعام کی ٹیم نے شواہد حاصل کرنے کے بعد ایف آئی اے کے ہمراہ اسٹریم کار کے دفتر پر چھاپہ مارا جہاں پر ایجنٹ اور رمشا نامی خاتون موجود تھیں جو دراصل اس نیٹ ورک کو چلا رہیں تھیں۔
اقرار الحسن نے فضل سے ایپلیکشن کے حوالے سے سوال کیا تو اُس کے ہاتھ پیر پھول گئے جس پر رمشا نے مداخلت کرتے ہوئے بتایا کہ آپ اسٹریمر کو ملازمت دے کر صارفین سے تحائف اور ڈائمنڈز حاصل کرسکتے ہیں۔
رمشا نے بتایا کہ وہ اس کاروبار میں فضل کی پارٹنر ہے جبکہ وہ دونوں مل کر پراپرٹی کی خریدوفروخت کا کام بھی کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: کراچی، غیر اخلاقی ویب سائٹ چلانے والا گروہ گرفتار
ٹیم سرعام کی رضاکار نے جب فضل سے رابطہ کیا تو اُس نے کہا کہ ’رمشا پانچ بجے دفتر سے چلیں جائیں گی یہاں میرے ایک دوست موجودرانا موجود ہیں جن سے تمھیں ملاقات کرنا ہے‘۔
اُس دفتر میں ایک اور رانا نامی باریش شخص موجود تھا جس نے بتایا کہ وہ ماسک فروخت کرنے کا کام کرتا ہے اور وہ اسی کام کی غرض سے یہاں آیا تھا مگر جب ایف آئی اے اہلکار نے اُس کا موبائل کھولا تو اُس میں اسٹریم کار کھلی ہوئی تھی جبکہ خواتین کی نازیبا تصاویر اور ویڈیوز بھی موجود تھیں۔
اقرار الحسن نے ایپلیکیشن کے ایجنٹ اور دفتر کے مالک فضل کو اُس کی ویڈیو کال دکھائی جس میں وہ خاتون سے جنسی خواہشات پوری کرنے کا مطالبہ کررہا تھا اور اُس نےخاتون پر جنسی حملہ بھی کیا تھا۔
ایپ کے لیے کام کرنے والی خاتون کی شناخت کو ظاہر نہیں کیا گیا۔