ہفتہ, نومبر 23, 2024
اشتہار

کراچی میں بڑھتی ہوئی اسٹریٹ کرائم کی وجوہات کیا ہیں؟

اشتہار

حیرت انگیز

شہر قائد کراچی پاکستان کا دل ہی نہیں بلکہ معاشی شہ رگ بھی ہے، یہاں چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی روزگار کمانے آتے ہیں۔

کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے، اسلحہ بردار دہشت گرد پورے شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں، یہ سفاک ملزمان اپنے مقصد کے حصول کیلئے کسی شہری کی جان جانے کی ذرا بھی نہیں پرواہ نہیں کرتے۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’ذمہ دار کون‘ میں میزبان کامل عارف کے مطابق کراچی میں کسی شہری کو لوٹنا کوئی بڑی بات نہیں ہر شخص اس لیے خوفزدہ ہے کہ ڈاکو نہ صرف سڑکوں بلکہ گھر کی دہلیز پر بھی واردات سے گریز نہیں کرتے۔

- Advertisement -

اس حوالے سے شہریوں کا کہنا ہے کہ کراچی پورے ملک کا ایسا واحد شہر ہے جہاں لوگ کمانے بھی آتے ہیں اور لوٹنے بھی آتے ہیں۔ ایک شہری کا کہنا تھاکہ پولیس کیلئے ضروری لے کہ وہ لوگوں کو اس بات اعتماد دلائے کہ وہ ان کے تحفظ کیلئے ہے اگر پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت ختم کردی جائے تو وہ اپنا بہتر کردار ادا کرسکتی ہے۔

ایک شہری کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب بھی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے تو اسٹریٹ کرائم بھی بڑھ جاتے ہیں، اس حوالے سے انتطامیہ کیا کرتی ہے وہ سب بیت جانتے ہیں، پولیس جرائم پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔

اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں یہ بات خاص اہمیت کی حامل ہے کہ ملزمان کی بڑی تعداد کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جو انتہائی قابل افسوس اور تشویشناک ہے۔

سچل تھانے کے ایس ایچ او اورنگزیب نے بتایا کہ ہماری حدود میں 20 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں اور ہمارے پاس مجموعی طور پر 150 اہلکار ہیں جو دو حصوں میں ڈیوٹی ادا کرتے ہیں، یہ کہا جاسکتا ہے کہ 20 لاکھ کی آبادی کیلئے ایک وقت میں صرف 50 اہلکار سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں۔

ایس ایچ او اورنگزیب نے بتایا کہ ان وارداتوں کی بڑی وجہ معاشی تنگدستی ہے، انہوں نے بتایا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پورے خاندان وارداتیں کرتے ہیں۔

ایس ایس پی ایس آئی یو عارف عزیز کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملکی میں جرائم کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے، اور سال میں ایک بار ایسا پیریڈ ضرور آتا ہے کہ اسٹریٹ کرائم کی شرح بہت تیزی سے بڑھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر ملزمان کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ واردارت کرو جب پکڑے جاؤ تو کچھ عرصہ جیل کاٹ کر دوبارہ سے وارداتیں کرنا شروع کردو جبکہ کچھ ملزمان نشے کی لت کو پورا کرنے کیلئے واردارتیں کرتے ہیں۔

کراچی کی سڑکوں کی کل پیمائش 9ہزار 500 سو کلومیٹر ہے، گزشتہ ایک سال کے دوران چوری اور چھینا چھپٹی کی کارروائیوں کی کل تعداد 1 لاکھ کے قریب ہے۔ کراچی پولیس ذرائع کے مطابق اہلکاروں کی کل تعداد 35ہزار کے لگ بھگ ہے۔ جن میں سے 7 سے 8 ہزار اہلکار وی آئی پی ڈیوٹیز پر تعینات ہیں جو بہترین تربیت یافتہ بھی ہیں۔

اس طرح ڈھائی کروڑ والے اس شہر کی آبادی کیلئے صرف 25 سے 26 ہزار اہلکار تعینات ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ایک ہزار شہریوں کیلئے صرف ایک اہلکار دستیاب ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جرائم کا تدارک کیسے کیا جائے، ملزم کو پکڑے جانے کے بعد اس کو جرم سے باز رکھنے کیلئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ وہ دوبارہ اس راہ پر نہ چلے، جیلیں بھرنا مسئلے کا حل نہیں ان کی اصلاح بھی کرنا ہوگی اگر وہ بے روزگاری کی وجہ سے جرم کررہا ہے تو حکومت کا فرض ہے کہ اسے روزگار فراہم کرے ورنہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں