کیا آپ کو معلوم ہے کہ والدین کی سخت اور غصیلی طبعیت سے بچہ ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔
جرمنی میں ہونے والی ایک تحیقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن بچوں کے والدین سخت ہوتے ہیں، ان بچوں میں ڈپریشن اور دیگر دماغی صحت کے مسائل پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ تحقیق جرمنی کے شہر بیلجیئم میں کی گئی اس تحقیق میں 23 بچوں کو شامل کیا گیا ہے، جن کی عمریں 12 سے 16 سال کے درمیان تھیں۔
یہ وہ بچے تھے جنہوں نے اپنے والدین کو سخت مزاج ہونے کی شکایات کی تھیں، اس کے بعد بچوں کی ذہنی صحت کا موازنہ ان بچوں سے کیا گیا جن کے والدین نرم مزاج تھے۔
تحقیق کے مطابق آمرانہ طرزِ فکر کے حامل والدین کے بچے دماغی و ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بن جاتے ہیں۔
بولنے میں ہکلاہٹ یا لکنت کیوں ہوتی ہے؟
تحقیقی ماہر ڈاکٹر ایولین وان اسشے کے مطابق وہ والدین جو اپنے بچوں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر انہیں جسمانی و ذہنی سزائیں دیتے ہیں، ان کے بچوں کے ڈی این اے میں ایک خاص جین کا اضافی سیٹ پیدا ہوجاتا ہے جو ان سخت رویوں کے باعث بچوں کے ذہن کو متاثر کرتا ہے۔
تحقیق کے مطابق وہ بچے جن کے والدین نرم مزاج کے ہوتے ہیں ان کے بچوں میں اس نوعیت کے مسائل کے امکانات بھی نمایاں طور پر کم ہوتے ہیں۔
دیگر متعدد مطالعات کے مطابق چھ سال سے کم عمر کے بچوں کو درپیش ذہنی صحت کے مسائل کے پھیلاؤ کا باعث والدین کا رویہ ہے۔
حیران کُن بات یہ ہے کہ والدین کے سخت رویوں سے بچوں کا ڈی این اے متاثر ہوا، جینوم میپنگ سے پتہ چلتا ہے کہ ان بچوں میں ’میتھیلیشن ‘کی تبدیلی میں اضافہ ہوا تھا، جس کا تعلق ڈپریشن سے ہے۔
’میتھیلیشن ‘ایک ایسا عمل ہے جس کے دوران ایک اضافی مالیکیول ڈی این اے میں شامل ہوجاتا ہے، جس سے اس کی ہدایات کو پڑھنے کا طریقہ بدل جاتا ہے۔
سخت والدین کے بچے توقع سے کہیں زیادہ میتھیلیشن سے گزرتے ہیں جس کے بعد انہیں ان مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی کئی دیگر مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سخت اور غصیلی طرز تربیت بچوں کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے۔