منگل, مئی 13, 2025
اشتہار

ماہرین نے ریاضی کا مضمون چھوڑنے والے طلبہ کو بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

اشتہار

حیرت انگیز

عام طور سے اسکولوں میں دیکھا جاتا ہے کہ بچے میتھس (ریاضی) کے مضمون سے سخت نالاں ہوتے ہیں، اور الجبرا، فریکشن اور بہت سارے فارمولوں میں پھنسے بچے، کسی بھی صورت ریاضی کا مضمون چھوڑنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

تاہم ایک نئی سائنسی تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ ریاضی (mathematics) چھوڑنے سے دماغ پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور اگر 16 برس کی عمر میں ریاضی کا مضمون چھوڑا تو اس کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

انسانی دماغ کی بہتر نشونما کے لیے ریاضی کے سوالوں کی بے حد ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاضی کا مضمون چھوڑنے سے دماغ کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

سائنسی تحقیق کے بعد ماہرین نے کہا ہے سولہ سال کی عمر میں جو طلبہ میتھمیٹکس چھوڑ دیتے ہیں، ان میں بدستور ریاضی پڑھنے والوں کی نسبت ایک قسم کے دماغی کیمیکل کی سطح کم رہ جاتی ہے، جو دماغ اور ادراکی قوت کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔

آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ریسرچرز نے دیکھا کہ جن طلبہ نے سیکنڈری ایجوکیشن کے بعد ریاضی چھوڑ دیا، ان میں گاما امینوبیوٹرک ایسڈ نامی کیمیکل کی مقدار کم پائی گئی، جو کہ دماغ (brain) کی شکل پذیری کے لیے اہم ہوتا ہے۔

نیورو ٹرانسمیٹر کے طور پر کام کرنے والے اس کیمیکل کی کمی دماغ کے ایک اہم حصے پری فرنٹل کارٹیکس (prefrontal cortex) میں پائی گئی، جو ریاضی، یادداشت، سیکھنے، استدلال کی صلاحیت اور مسائل کے حل کے لیے مدد کرتا ہے۔

آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ ’تجرباتی نفسیات‘ کے محققین نے اس مطالعے کے لیے 14 سے 18 برس کی عمر کے 130 طلبہ کو شریک کیا، 16 سال سے زائد عمر کے طلبہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ریاضی چھوڑ چکے ہیں، اور چھوٹے بچوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ریاضی چھوڑنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ان سب کو ایک برین اسکین اور ادراکی تجزیے سے گزارا گیا، اور پھر 19 ماہ بعد پھر دیکھا گیا۔

جریدے پرسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع شدہ اس مقالے کے مطابق محققین نے سولہ سال کے بعد ریاضی پڑھنے اور نہ پڑھنے والے طلبہ میں دماغی کیمیکل کی کارکردگی میں واضح فرق دیکھا، تاہم 19 ماہ بعد بچوں کا ٹیسٹ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ جن بچوں میں گاما امینوبیوٹرک ایسڈ کی بہتر نشوونما ہوئی وہ سوالوں کو بہ آسانی حل کر سکے۔

تحقیق کے بعد سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ریاضی کی مشکل مساوات کو حل کرنے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کرنا دماغ کے اس حصے کو مضبوط بناتا ہے، اور لوگوں کو ممکنہ طور پر بعد کی زندگی میں مشکل مسائل حل کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔

آکسفورڈ یونی ورسٹی کے نیورو سائنس کے پروفیسر، روئی کوہن قدوش نے کہا کہ ریاضی میں دل چسپی نہ رکھنے والے بچوں کو اس کے مطالعے پر مجبور کرنا بھی صحیح نہیں ہے، بلکہ ہمیں ان کے لیے متبادل راستے ڈھونڈنے چاہئیں تاکہ ان کے دماغ کی ورزش ہو سکے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں