لاڑکانہ: چانڈکا میڈیکل کالج میں ہاسٹل میں مبینہ طور پر خودکشی کرنے والی طالبہ نوشین کاظمی کی ڈائری ملی ہے، جس میں انھوں نے کچھ گھریلو مسائل کا اظہار کیا ہے، دوسری طرف ڈاکٹر نوشین کی روم میٹ کوئٹہ کی رہائشی زینب پٹھان نے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا۔
تفصیلات کے مطابق لاڑکانہ میں میڈیکل اسٹوڈنٹ ڈاکٹر نوشین شاہ کیس میں اہم انکشافات ہوئے ہیں، نوشین سندھ کے نامور شاعر استاد بخاری کی نواسی تھی۔
ڈاکٹر نوشین کے ہاسٹل کمرے سے ایک ڈائری ملی ہے، جس میں گھریلو مسائل کا اظہار کیا گیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر نوشین گھر کے ایک اہم فرد سے متعلق والد کو آگاہ کرنا چاہتی تھیں۔
نوشین کاظمی نے ڈائری کے ایک صفحے پر لکھا تھا کہ ‘بابا میں آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہوں، بھائی کو بھی معلوم ہے۔’ ذرائع کا کہنا ہے کہ نوشین کے کمرے سے ملنے والی ڈائری میں موجود تحریریں رومن اردو میں لکھی گئی ہیں۔
ادھر چانڈکا میڈیکل کالج ہاسٹل میں ڈاکٹر نوشین کی ہلاکت کے معاملے میں روم میٹ کوئٹہ کی رہائشی زینب پٹھان نے ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز کی سربراہی میں قائم جی آئی ٹی کو اپنا بیان رکارڈ کرادیا ہے، نوشین نہایت کم گو اور تنہائی پسند اسٹوڈنٹ تھیں، وہ لڑکیوں سے نہ گھلتی ملتی نہ ہی زیادہ بات کرتی تھیں۔
لاڑکانہ میں طالبہ کی پراسرار موت، پرنسپل چانڈکا کالج کا بیان آگیا
اے آر وائی نے نوشین کا اکیڈمک ریکارڈ بھی حاصل کر لیا، نوشین چانڈکا میڈیکل کالج کی بیچ 46 کی فورتھ ایئر کی طالبہ تھی، فرسٹ ایئر اور تھرڈ ایئر کے سالانہ امتحانات میں وہ 2 بار فیل ہوئیں، فیل ہونے والے سبجیکٹس کو سپلیمنٹ امتحانات میں کلیئر کیا، ڈاکٹر نوشین نے ڈیپارٹمنٹ کی 27 کلاسز میں سے صرف 10 کلاس اٹینڈ کیں۔
دریں اثنا، بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار نے سول سوسائٹی پر یونیورسٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کر دیا ہے، رجسٹرار نے ہوم ڈپارٹمنٹ کو لکھے گئے خط میں لکھا کہ سول سوسائٹی نمرتا کماری ہلاکت پر یونیورسٹی کو واقعے کا ذمہ دار ٹھراتی ہے اور اب دوبارہ یونیورسٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی معاملے کی عدالتی تحقیقات کی پیش کش کر دی ہے اور کہا کہ اگر نوشین شاہ کے ورثا چاہیں تو عدالتی کمیشن قائم کیا جا سکتا ہے، ڈاکٹر نوشین کاظمی سندھ کے نامور رومانوی شاعر استاد بخاری کی نواسی تھیں، استاد بخاری سے نسبت کے باعث ڈاکٹر نوشین کا معاملہ سوشل میڈیا پر مسلسل بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل کالج میں چوتھی کلاس کی میڈیکل طالبہ نوشین کاظمی کی گرلز ہاسٹل نمبر 4 کے کمرے میں پنکھے سے لٹکی لاش برآمد ہوئی تھی۔ نوشین کاظمی کی لاش برآمد ہونے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ’جسٹس فار نوشین کاظمی‘ کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ بن گیا جس میں صارفین نے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔
نوشین کاظمی نے خودکشی کی ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے، میڈیکل کالج کے طالب علموں نے واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
25 نومبر کو نوشین کاظمی کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی موت لٹکنے اور دم گھٹنے کے باعث واقع ہوئی، نوشین کاظمی کے گلے پر 26 سینٹی میٹر لمبے اور 1 سینٹی میٹر چوڑے نشانات پائے گئے، ان کے دونوں پھیپھڑوں میں خون کے نشانات بھی پائے گئے ہیں، تاہم جسم پر کسی تشدد کے نشانات کا رپورٹ میں ذکر نہیں۔