علاءُ الدّین خلجی سے متعلق ہندوستان میں کئی قصّے اور داستانیں مشہور ہوئیں۔ اس حکم راں کو اگر مؤرخین نے زبردست فاتح، حلیم الطبع اور بہترین منتظم لکھا ہے تو بعض محققین اسے محسن کُش بھی بتایا ہے۔ تاریخی کتب میں ہے کہ علاءُ الدّین خلجی کی تاج پوشی کے موقع پر سلطنتِ دہلی کے دارُالحکومت کے شاہی محل میں جشن کا سماں تھا۔ وہ خلجی خاندان کا دوسرا حکم راں بنا اور سلطان کہلایا۔
سلطان علاء الدین نے 1296ء میں زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنی وفات تک ہندوستان پر راج کیا۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ علاء الدّین خلجی نے اقتدار کے لیے سازش رچی تھی اور اپنے چچا اور سسر کو قتل کروایا۔ مؤرخین نے اسے خلجی خاندان کا طاقت ور سلطان بھی لکھا ہے۔ سلطان علاء الدین کا سنہ پیدائش 1266ء اور مقام دہلی تھا۔ وہ اس وقت کے بادشاہ جلال الدّین کے بڑے بھائی شہاب الدین مسعود کے گھر پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام علی گرشپ تھا اور اس کی پرورش چچا نے کی جو اس وقت خلجی خاندان کے حکم راں تھے۔
علاء الدّین خلجی کو کم عمری ہی میں تیر اندازی، نیزہ بازی، شکار اور گھڑ سواری کا شوق تھا۔ اس نے سپاہ گری میں مہارت حاصل کی اور بادشاہ کی نظر میں اہمیت اختیار کرتا گیا۔ نوجوان علاء الدّین خلجی کو کڑہ کی بغاوت کو فرو کرنے کے لیے بھیجا گیا جس میں کام یابی کے بعد اسے وہاں کا گورنر بنا دیا گیا۔ بعد میں بادشاہ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی اپنے اس بھتیجے سے کردی۔
مؤرخین نے سلطان علاء الدین خلجی کو انتظامی ذہانت سے مالا مال، باتدبیر اور حوصلہ مند حکم ران بھی لکھا ہے جس نے مضبوط اور منظّم فوج کے ساتھ کئی بغاوتوں کو کچلا اور کام یابی سے حکومت کی۔ جب منگولوں نے دہلی سلطنت کو روندنے کے لیے پیش قدمی کی تو سلطان ہی نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور بدترین شکست دی۔ کہتے ہیں کہ ایک جنگی مہم کے بعد علاء الدین نے سازش کرکے بادشاہ کو قتل کروا دیا اور اس کی جگہ تخت سنبھال لیا۔ علاء الدّین نے بطور خلجی حکم راں اپنی حکومت مضبوط کیا اور کئی کام یابیاں حاصل کیں لیکن اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور خلجی خاندان نے اپنا زوال دیکھا۔
تاریخ کی بعض کتب جو بہت بعد میں لکھی گئیں، ان میں خلجی کے دور کے بارے میں آیا ہے کہ حکومت کا بڑا دبدبہ تھا۔ بازاروں پر انتظامیہ کا مکمل کنٹرول تھا، معاشی اصلاحات اور ایک منظّم محصول پالیسی تھی جو ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کا توڑ کرتی تھی۔ اس سے عوام کو براہِ راست فائدہ پہنچانا مقصود تھا، جب کہ ایک بڑا کارنامہ منگولوں کو کچلنا تھا۔
سلطان علاء الدّین خلجی کی زندگی کے آخری ایّام بیماری کے سبب بستر پر گزرے اور اس کا معتمدِ خاص ملک کافور تخت سے لے کر جانشینی تک کے معاملات نمٹانے میں پیش پیش رہا۔ 4 جنوری 1316ء کو سلطان علاء الدین خلجی اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہوا۔