ہفتہ, مئی 3, 2025
اشتہار

سلطان محمد ثانی: فاتح قسطنطنیہ کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

سلطان محمد ثانی کو فتحِ قسطنطنیہ کے سبب جو امتیاز حاصل ہوا، وہ سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں‌ میں کسی کا مقدر نہیں بنا۔ عالمِ اسلام میں اس فتح کے بعد ان کو بے پناہ عزّت، احترام اور مقام دیا گیا۔ انھیں آج بھی سلطان محمد فاتح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس فتح کے ساتھ ہی صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آج سلطان محمد فاتح کا یومِ وفات ہے۔

فتحِ قسطنطنیہ وہ خواب تھا جس کے لیے مسلمانوں کو سات سو سال انتظار کرنا پڑا اور اس عرصہ میں متعدد فوجی مہمّات اور لشکر کشی کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں‌ سلطان محمد فاتح کی قیادت میں اس فتح نے جہاں ترکوں‌ کی سلطنت اور اقتدار کو توقیر اور وسعت بخشی وہیں‌ 1480ء برس تک قائم رہنے والا اقتدار زوال پذیر ہوگیا۔ یہ فتح مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر نہایت گہرے اثرات کی حامل تھی جس میں‌ ایک طرف مسلمانوں‌ میں‌ خوشی اور دوسری طرف صلیبیوں‌ کو بڑا صدمہ پہنچا۔

3 مئی 1481ء کو محمد فاتح انتقال کر گئے تھے۔ انھیں‌ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔ سلطان صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظامِ سلطنت اور اپنی قابلیت کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت رواداری اور برداشت کے لیے مشہور رہا۔ 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہونے والے محمد ثانی نے نوجوانی میں‌ سلطنت سنبھالی اور عثمانی فوج کی قیادت کرتے ہوئے محض 21 سال کی عمر میں‌ 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا جسے آج استنبول کہا جاتا ہے۔ عثمانی فوج کا کئی روزہ محاصرہ اور گولہ باری کے بعد اس فتح کو اُس وقت شہر میں موجود اطالوی طبیب نکولو باربیرو نے یوں‌ بیان کیا کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

اس روز فتح کے بعد جب سلطان محمد شہر میں‌ داخل ہوئے تو وہ سفید گھوڑے پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا لشکر مع وزراء اور عمائد سب سے بڑے گرجا آیا صوفیہ پہنچا جہاں سلطان نے صدر دروازے پر اتر کر ایک مٹھی خاک اپنی پگڑی پر ڈالی اور بعد میں اسے مسجد میں‌ تبدیل کر دیا گیا۔ اس فتح کے بعد عثمانی سلطنت اپنے بامِ عروج پر پہنچی اور ترکوں نے اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مختلف حصّوں پر حکومت کی۔

محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور تربیت حاصل کی۔ 1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات کے بعد سلطان محمد ثانی نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور سلطنتِ عثمانیہ کو دنیا بھر میں عظمت اور امتیاز عطا کیا۔

اناطولیہ اور پھر قسطنطنیہ کی فتوحات کے بعد اسے اپنا دارُ الحکومت قرار دے کر محمد ثانی نے یورپ کی طرف پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ شکست بھی ہوئی، لیکن ان کے دور میں‌ عثمانی سلطنت کا رقبہ خاصا وسیع ہوگیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ سلطان علما، اور ہنر مندوں کے بڑے سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلاتفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔ ان کا دور رواداری اور برداشت کا دور سمجھا جاتا ہے جس میں مفتوح بازنطینیوں کے ساتھ نیک اور مثالی سلوک کیا گیا۔ اس دور میں مسیحیوں اور یہودیوں کو ہر قسم کی آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں