پاکستانی فلم انڈسٹری آج اپنے مولا جٹ اداکارسلطان راہی کی 21ویں برسی منا رہی ر ہے‘ وہ آج بھی وہ اپنے چاہنے والوں کے دِلوں میں زندہ ہیں۔
کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی زندگی کے ناطے کئی زندگیوں کے چراغ جل رہے ہوتے ہیں اور جب ان کی زندگی کا چراغ بجھ جاتا ہے تو اک چراغ کے بجھتے ہی کئی زندگیوں کے چراغ مدھم ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ان چراغوں میں محبت کے تیل کی کمی ہوجاتی ہے۔
ماضی میں ہماری فلمی صنعت میں دو فنکار ایسے بھی گزرے ہیں جن کی وجہ سے فلمی صنعت کے سینکڑوں مزدوروں کے گھروں میں رزق کی روشنی ہوتی تھی۔ رزق تو رب کی ذات دیتی ہے مگر رب کے توسط سے کچھ رب کے بندے زمین پر نیک کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سلطان راہی کا نام سرفہرست ہے۔
سلطان راہی تو فن کے شہید تھے۔ شہید اس لیے تحریر کر رہا ہوں کہ اس شخص کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ وہ تو لوگوں کے لیے شب و روز اسٹوڈیو میں محنت کرتا تھا۔ اس فلمی صنعت میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ اردو فلمیں نہ ہونے کے برابر تھیں اور جو فنکار تھے وہ اپنی فلمی زندگی کے سنہرے دن ختم کر کے ٹی وی سے وابستہ ہوگئے یا پھر اپنی پروڈکشن شروع کردی۔
اس وقت واحد اداکار سلطان راہی مرحوم تھے ، جن کی وجہ سے ایورنیو اور شباب اسٹوڈیو میں رونقیں بحال ہوئیں ، انھوں نے کولہو کی بیل کی طرح مزدوروں کیلئے کام کیا کہ ان کے گھر کے چولہے جلتے ہے، کبھی کسی فلم ساز سے معاوضے کے حوالے سے بحث یا جھگڑا نہیں کیا ، جس نے جو دیا خاموشی سے لے لیا ، کبھی پروڈیوسر سے بقایا واجبات نہیں مانگے ، منافقت سے ہمیشہ کوسوں دور رہے وہ پاکستان کے واحد اداکار یا ہیرو تھے ، جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود کم عمر ہیروئن کے ہیرو بنے اور فلمیں سپر ہٹ ہوئی، 1970 سے لے کر 1996 تک انھوں نے پنجابی فلموں کے حوالے سے انڈسٹری پر حکومت کی ، پروڈیوسر حضرات ہاتھ جوڑ کر ان کے پیچھے پھرا کرتے تھے ، مگر وہ نیک آدمی تھے ، کبھی غرور نہیں کیا۔
شکل اور جسمانی لحاظ سے ہیرو نہیں لگتے تھے ، 1990 کے بعد عمر رسیدہ بھی ہوگئے تھے، مگر پاکستان میں ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں تھی ، جن میں صوبہ پنجاب قابلِ ذکر ہے‘جنوری 1996 میں کچھ لٹیروں نے چند سکّوں کی خاطر ان سے ان کی زندگی چھین لی۔
راقم کی تفصیلی ملاقات کراچی میں شوٹ ہونے والی فلم ’سڑک ‘ کے دوران ایک انٹرویو کے لئے مقامی ہوٹل میں ہوئی ، اس سن شہر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوا تھا ، جس کی وجہ سے فلم سڑک کی شوٹنگ کینسل ہوگئی تھی اور پھر یہ ملاقات تقریبا گھنٹے رہی دوپہر کا کھانا مرحوم کے ساتھ کھایا ، دورانِ انٹرویو ان کی خوش گفتاری اور خوبصورت اردو سننے کے بعد حیرت زدہ تھا کہ پنجابی فلموں کے سپر ہٹ ہیرو اور اردو اتنی لاجواب کے بیان سےباہر۔
میں نے پوچھ لیا کہ راہی صاحب آپ کی اردو بہت لاجواب ہے۔ زور سے ہنستے ہوئےکہا کہ میاں کمال کرتے ہوں میری مادری زبان اردو ہے اور ہمارا تعلق یوپی سے ہے ۔ جب پاکستان بنا تو میں دس سال کا تھاہجرت کرکے والدین پنڈی آگئےہمارا ایک غریب گھرانے سے تعلق تھا پنڈی سے میٹرک کیا اور پنڈی کے صدر بازارمیں ایک دکان میں سیلزمین کی نوکری کری ۔دکان کے مالک فراست صاحب بہت نیک آدمی تھے وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے اور پھرزندگی1969تک مشکل راستوں کے تحت گزرتی رہی ۔ یہاں سے فلمی صنعت کا رخ کرلیا یہاں اخلاق احمد انصاری مرحوم نے مجھے رہاہش دی اور پھر میں یہی کا ہوکررہ گیا۔
فلم ’باغی‘ میں مسرت نذیرا اور سدھیر کے ہاتھ کام کیا سدھیر بادشاہ آدمی تھے جونیر اداکاروں سے بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ سدھیر صاحب نے اقبال کاشمیری سے میری سفارش کی اور میں فلم ’بابل‘میں کاسٹ ہوگیا اور اس فلم نے میری ذندگی کو ایک نئی زندگی د ی میرے دل میں سدھیر صاحب کے لئے بہت احترام ہے وحید مراد مرحوم نے میری ملاقات اسلم ڈار سے کرائی اور انہوں نے ’بابل‘میں میری کارکردگی کو دیکھتے ہوئے وحید مراد کے کہنے پر فلم ’بشیرا‘میں مرکزی کرداردیا۔ اس فلم نے تومیری تقدیر بدل دی میں اسلم ڈار اور وحید مراد مرحوم کا یہ احسان ذندگی بھر کے نہیں بھول سکتا اور پھر مولا جٹ نے تو مجھے سپراسٹار زکی صف میں لاکھڑا کیا ۔
سلطان راہی نےانٹرویو کے دوران کہا کہ برخوردار تمہیں اردو سن کر حیرت ہورہی ہے جب آسیہ نے میرے ساتھ مولا جٹ میں کام کیا تو پنجابی کا تلفظ سن کر میں بھی اسی طرح حیرت زدہ ہوا تھا جیسے تم ہورہے ہو، آسیہ کی مادری زبان بھی اردو تھی، ان کے والدین بھی بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔
سلطان راہی نمازی پرہیز گار انسان تھے ان کے ماتھے پر رب کے نور کا نشان تھا، انہوں نے اسٹوڈیو میں مسجد بنوائی اور اکثر امامت کے فرائض بھی انجام دیتے، مرحوم نے 500 کے قریب فلموں میں اداکاری کی، جن میں بیشتر نے ڈائمنڈ جوبلی، پلاٹینیم جوبلی، گولڈن جوبلیاں منائیں جبکہ سلور جوبلی فلموں کی تعداد تو سینکڑوں میں ہے۔