تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

جب بالی وڈ کے معروف اداکار سنیل دت پاکستان آئے…

قیامِ پاکستان سے پہلے کا زمانہ بمبئی کی فلمی صنعت کے لئے ایک سنہری دور تھا۔ بڑے بڑے نام ور اور کام یاب ہدایت کار، اداکار، موسیقار اور گلو کار اس دور میں انڈین فلمی صنعت میں موجود تھے۔ ہر شعبے میں دیو قامت اور انتہائی قابلِ قدر ہستیاں موجود تھیں۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان کی فلمی صنعت کے ناقابلِ فراموش اور انتہائی اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے لوگ ایسے تھے جنہوں نے کبھی کسی انسٹی ٹیوٹ یا فلم کی تعلیم دینے والے ادارے کا منہ تک نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں اور تجربہ کار لوگوں سے یہ فن سیکھا تھا۔ پونا فلم انسٹی ٹیوٹ کا قیام تو کافی عرصے بعد عمل میں آیا تھا۔ اس سے پہلے پرانے تجربہ کار استاد ہی اپنے شاگردوں کو سکھایا کرتے تھے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ اس دور میں ہندوستان کی فلمی صنعت نے بہت ہنر مند اور ایسے فن کار پیدا کیے جن کی مثال آج بھی پیش نہیں کی جاسکی۔ ذرا غور کیجئے کہ محبوب خان، شانتا رام، بمل رائے ، گرودت، کمال امروہوی، راج کپور، اے آر کار دار جیسے ہدایت کار آج کیوں نظر نہیں آتے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کسی اسکول یا کالج میں فلم کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں بیشتر لوگ وہ تھے جنہوں نے باقاعدہ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم تک حاصل نہیں کی۔ انہیں قدرت نے خود تعلیم دی تھی۔ صلاحیتیں عطا کی تھیں اور انہیں اپنے اپنے فن میں کمال حاصل تھا۔ مثال کے طور پر محمود خان جیسے ہدایت کار گجراتی کے سوا کوئی اور زبان نہیں جانتے تھے۔ لیکن انہوں نے ہندوستان کی فلمی صنعت میں جو انوکھے تجربات کیے اور جو بے مثال فلمیں بنائیں انہیں دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ اردو فلمیں بنانے والا یہ عظیم ہدایت کار اردو زبان نہ پڑھ سکتا تھا اور نہ ہی لکھ سکتا تھا۔

اس زمانے میں جو بھی فلموں میں کام کرنا چاہتا تھا ٹکٹ کٹا کرسیدھا بمبئی کا راستہ لیتا تھا۔ ان لوگوں کے پاس نہ پیسا ہوتا تھا نہ سفارش اور نہ ہی تجربہ مگر قسمت آزمائی کا شوق انہیں بمبئی لے جاتا تھا۔ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہزاروں نوجوان اداکار بننے کی تمنا لے کر اس شہر پہنچے تھے۔

ان میں سے اکثر خالی ہاتھ اور خالی جیب ہوتے تھے۔ بمبئی جیسے بڑے وسیع شہر میں کسی انجانے کم عمر لڑکے کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کے لالے پڑ جاتے تھے۔ عموماً ان کی جیبوں میں ایک روپیہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ اللہ پر توکل کی مثال اس سے زیادہ اور کیا ہو گی کہ بمبئی جیسے لاکھوں انسانوں کے سمندر میں یہ کود پڑتے تھے۔

محبوب خان اپنے گاؤں سے چند روپے لے کر بمبئی گئے تھے۔ ان کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ تھی۔ انہوں نے مسجدوں میں بسیرا کیا۔ راتوں کو بمبئی کی کشادہ سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر بغیر بستر کے سوئے۔ درجنوں پھیرے لگانے کے بعد فلم اسٹوڈیو کے اندر داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تو وہاں مزدوروں، قلیوں اور سامان اٹھانے کا کام کرنے کو ملا۔ قسمت نے یاوری کی کہ ایکسٹرا کے طور پر کام کرنے لگے۔ پھر قدرت نے مزید مواقع فراہم کئے، محبوب خان کی کہانی انوکھی نہیں ہے۔ ہمارے فلم سازو ہدایت کار لقمان دہلی سے چند روپے لے کر بمبئی پہنچے۔ فلموں کا جنون تھا، اس وقت اس کی عمر پندرہ برس ہوگی۔ انہوں نے بھی بمبئی میں فلموں کے اسٹوڈیو کے اندر قدم رکھنے کے لئے بہت پاپڑ بیلے۔ ان کی اور محبو ب خان کی کہانی معمولی سے فرق کے ساتھ ایک جیسی ہے۔ فلم اسٹوڈیو کے اندر داخل ہونے کا موقع ملا تو انہوں نے بھی مزدوروں اور قلیوں جیسے کام کیے۔ پھر کس طرح قسمت نے مہربانی کی یہ کہانی آپ پہلے سن چکے ہیں۔ ان کی تعلیم بھی اردو لکھنے پڑھنے تک محدود تھی۔

1940ء کے بعد سے لے کر قیام پاکستان تک اور اس کے بعد کا دور انڈین فلم انڈسٹری میں عروج اور کام یابیوں کا دور تھا۔ یہ سب کارنامے ایسے ہی سر پھروں نے سر انجام دیے تھے، آج ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔ ان کے بارے میں کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ انہیں انڈین فلموں کے عظیم ترین نام کہاجاتا ہے مگر ان میں سے کسی نے کسی فلم انسٹی ٹیوٹ میں قدم بھی نہیں رکھا۔ جو بھی سیکھا اپنے استادوں سے سیکھا جنہوں نے اپنے استادوں سے سیکھا تھا۔ یہی لوگ آج انڈین فلم انڈسٹری کے چاند سورج کہے جاتے ہیں جنہوں نے بے شمار چمکدار ستاروں کو روشنی دے کر صنعت کے آسمان پر جگمگا دیا۔ ( ہندوستان اور پاکستان کے بھی) اکثر بڑے ممتاز، مشہور اور معروف لوگوں کی زندگیاں ایسے ہی واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔

آئیے، آج آپ کو ایک ایسے ہی معروف اور ممتاز آدمی کی کہانی سناتے ہیں۔ جسے بر صغیر کا بچّہ بچّہ جانتا ہے لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے تھے، اور کیسے کیسے امتحانوں اور آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا۔

یہ قصّہ سنیل دت کا ہے، سنیل دت نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ بمبئی پہنچے تو ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ یہ انٹرویو بمبئی کی ایک فلمی صحافی لتا چندنی نے لیا تھا اور یہ سنیل دت کا آخری انٹر ویو تھا۔

سنیل دت جب بمبئی پہنچے تو ان کی جیب میں پندرہ بیس روپے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بمبئی میں در بدر پھرتے رہے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو سر چھپانے کا تھا۔ بمبئی میں سردی تو نہیں ہوتی لیکن بارش ہوتی رہتی ہے جو فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے لئے ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ بارش ہو جائے تو یا تو وہ سامنے کی عمارتوں کے برآمدے وغیرہ میں پناہ لیتے ہیں یا پھر فٹ پاتھوں پر ہی بھیگتے رہتے ہیں۔

وہ کہاں رہے؟ اس کا جواب تھا، "رہنا کیا تھا۔ فٹ پاتھوں پر راتیں گزارتا رہا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ دن کے وقت فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگاتا رہا مگر اندر داخل ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ آخر مجھے کالا گھوڑا کے علاقے میں ایک عمارت میں ایک کمرا مل گیا۔ مگر یہ کمرا تنہا میرا نہیں تھا۔ اس ایک کمرے میں آٹھ افراد رہتے تھے جن میں درزی، نائی ہر قسم کے لوگ رات گزارنے کے لئے رہتے تھے۔
میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ہر مہینے کچھ روپیا بھیجنا شروع کر دیا۔ میں نے جے ہند کالج میں داخلہ لے لیا تاکہ کم از کم بی اے تو کرلوں۔

میرا ہمیشہ عقیدہ رہا ہے کہ آپ خواہ ہندو ہوں، مسلمان، سکھ، عیسائی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں مگر ایک دوسرے سے محبت کریں۔ ہر مذہب محبت اور پیار کرنا سکھاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا اور نفرت کرنا نہیں۔ میں کالج میں پڑھنے کے ساتھ ہی بمبئی ٹرانسپورٹ کمپنی میں بھی کام کرتا تھا۔ میں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتا تھا اور گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔

ان دنوں بمبئی میں بہت سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اتنی شدید گرمی میں ایک ہی کمرے میں آٹھ آدمی کیسے سو سکتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے ہمارا دم گھٹنے لگتا تھا تو ہم رات کو سونے کے لئے فٹ پاتھ پر چلے جاتے تھے۔ یہ فٹ پاتھ ایک ایرانی ہوٹل کے سامنے تھا۔ ایرانی ہوٹل صبح ساڑھے پانچ بجے کھلتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ساڑھے پانچ بجے بیدار ہوجانا چاہئے تھا۔ ہوٹل کھلتے ہی ہماری آنکھ بھی کھل جاتی تھی۔ ایرانی ہوٹل کا مالک ہمیں دیکھ کر مسکراتا اور چائے بنانے میں مصروف ہوجاتا۔ ہم سب اٹھ کر اس کے چھوٹے سے ریستوران میں چلے جاتے اور گرم گرم چائے کی ایک پیالی پیتے۔ اس طرح ہم ایرانی ہوٹل کے مالک کے سب سے پہلے گاہک ہوا کرتے تھے۔

وہ ہم سے بہت محبت سے پیش آتا تھا اور اکثر ہماری حوصلہ افزائی کے لئے کہا کرتا تھا کہ فکر نہ کرو، اللہ نے چاہا تو تم کسی دن بڑے آدمی بن جاؤ گے۔ دیکھو جب بڑے آدمی بن جاؤ تو مجھے بھول نہ جانا، کبھی کبھی ایرانی چائے پینے اور مجھ سے ملنے کے لئے آجایا کرنا۔

دوسروں کا علم تو نہیں مگر میں کبھی کبھی جنوبی بمبئی میں اس سے ملنے اور ایک کپ ایرانی چائے پینے کے لئے چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتا تھا۔ میری ترقی پر وہ بہت خوش تھا۔

ایرانی چائے پینے کے بعد میں اپنی صبح کی کلاس کے لئے کالج چلاجاتا تھا۔ وہ بھی خوب دن تھے، اب یاد کرتا ہوں تو بہت لطف آتا ہے۔ ان دنوں میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لئے میں کم سے کم خرچ کرتا تھا اور کالج جانے کے لئے بھی سب سے سستا ٹکٹ خریدا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اسٹاپ سے پہلے ہی اتر کر پیدل کالج چلا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں دو اور ریستورانوں میں بھی جایا کرتا تھا۔ یہ خداداد سرکل میں تھے۔ یہ بھی ایرانی ہوٹل تھا۔ ایرانی کیفے کی چائے پینے اور وہاں کے بسکٹ کھانے کا ایک الگ ہی مزہ تھا۔ یہ ایرانی کیفے بہت غریب پرور ہوتے ہیں، سستے داموں مزیدار چائے اور ساتھ میں نمکین بسکٹ کھلاتے تھے۔

چرچ گیٹ اسٹیشن کے پاس بھی ایک کیفے تھا۔ ایرانی چائے کے ساتھ یہاں کھاری بھی ملتے تھے۔ یہ بڑے کرکرے کرکرے بسکٹ ہوتے تھے۔ چائے کے ساتھ یہ کرکرے بسکٹ کھانے میں بہت مزہ آتا تھا۔

اس وقت ہماری جیب صرف ایرانی کیفے میں کھانے پینے کی ہی اجازت دیتی تھی۔ آج کے نوجوان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جاکر لطف اٹھاتے ہیں مگر ان دنوں ایرانی کیفے ہی ہمارے لئے کھانے پینے اور گپ شپ کرنے کی بہترین جگہ تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ویٹر ایک کے اوپر ایک بارہ چائے کی پیالیاں رکھ کر کیسے گاہکوں کو تقسیم کرتا تھا۔ ایسا تو کوئی سرکس کا جوکر ہی کرسکتا ہے۔
ایرانی ہوٹل اس زمانے میں مجھ ایسے جدو جہد کرنے والے خالی جیب لوگوں کے لئے بہت بڑا سہارا ہوتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر بمبئی میں ایرانی ہوٹل نہ ہوتے تو میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ تو مر ہی جاتے۔

شام کو جب ہم سب اپنے کاموں سے فارغ ہوجاتے تو ایرانی ہوٹل میں بیٹھ کر ہر ایک اس روز کے واقعات سناتا۔ کبھی ہم اداس ہوجاتے اور کبھی ہنستے اور خوش ہوجاتے۔ ان دنوں کی یادیں اب کتنی پُرلطف اور دل چسپ لگتی ہیں۔

میں پچاس سال کے بعد اپنا آبائی گاؤں دیکھنے گیا جو کہ اب پاکستان میں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف(اس وقت کے) نے مجھے مدعو کیا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میں اپنا آبائی گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت مہربان اور شفیق ہیں۔ انہوں نے میرے لئے تمام انتظامات کرا دیے۔ میرے گاؤں کا نام خورد ہے۔ یہ جہلم شہر سے چودہ میل کے فاصلے پر ہے۔ میرا گاؤں دریائے جہلم کے کنارے پر ہے اور یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ گاؤں سے نکلتے ہی جہلم کے پانی کا بہتا ہوا نظارہ قابل دید ہے۔

میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ پاکستان کے لوگ بہت پر خلوص اور محبت کرنے والے ہیں۔ ہمارے عام لوگوں کی طرح۔ میں جب اپنے گاؤں پہنچا تو سارا گاؤں مجھ سے ملنے کے لئے اکٹھا ہوگیا۔ انہوں نے میری اور خاندان کی خیریت دریافت کی۔ کچھ بوڑھے لوگوں نے مجھے میرے بچپن کے واقعات سنائے اور بتایا کہ ہم سب اس زمانے میں مل کر کتنے خوش رہا کرتے تھے۔ پہلے تو میں سمجھا کہ وہ مجھ سے ملنے کے لئے اسی لئے اکھٹے ہوگئے ہیں کہ میں ایک اداکار ہوں اور ان میں سے بہت سوں نے میری فلمیں دیکھی ہوں گی اور میرے بارے میں سنا اور پڑھا ہوگا لیکن کچھ دیر بہت میری یہ غلط فہمی دور ہوگئی۔ وہ اپنے ایک پرانے بچھڑے ہوئے ساتھی سے ملنے آئے تھے، انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ میں نے اپنے آبائی گاؤں کو یاد رکھا اور اتنی دور سے صرف گاؤں دیکھنے اور گاؤں والوں سے ملنے آیا۔

میرے گاؤں میں بہت جوش و خروش اور محبت ملی۔ وہ سب لڑکے جو میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور ہم نے پرانی یادیں تازہ کیں۔ میں ان عورتوں سے بھی ملا جنہیں میں نے دس بارہ سال کی بچیاں دیکھا تھا مگر اب وہ ساٹھ پینسٹھ سال کی بوڑھی عورتیں ہوچکی تھیں۔ وہ میرے ساتھ کھیلنے والی بچیاں نانی دادی بن چکی تھیں۔ انہوں نے بھی بچپن کے بہت سے دل چسپ واقعات اور شرارتوں کی یادیں تازہ کیں۔ اس ماحول میں جاکر میں تازہ دم ہوگیا۔

میں نے پوچھا، آپ لوگ میرا اتنا احترام کیوں کر رہے ہیں؟

اس لئے کہ ہمارا مذہب یہی سکھاتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے پاس ایک درگاہ ہے۔ ہم سب ان کی عزّت کرتے ہیں۔ بڑے بڑے زمیندار بھی جب درگاہ کے پاس سے گزرتے ہیں تو اپنے گھوڑوں سے اتر جاتے ہیں۔ دراصل درگاہ میں سوئے ہوئے بزرگ کا احترام کرتے ہیں۔

میرے پتا جی مر گئے تھے جس وقت میں پانچ سال کا تھا۔ اس کے باوجود ہم اطمینان سے گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اس گاؤں میں مسلمان زیادہ اور ہندو کم تھے۔ قیام پاکستان کے وقت جو فسادات ہوئے ان دنوں میں مسلمانوں نے ہماری حفاظت کی اور ہماری جانیں بچائیں۔ میں میٹرک پاس کرنے کے بعد پاکستان سے آگیا تھا۔ پاکستان سے جانے کے بعد میں کبھی لاہور نہیں آیا۔ کراچی تو آنا ہوا تھا۔ کراچی میں مجھے بے نظیر بھٹو کی شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔

سنیل دت نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی محنت مزدوری اور جدو جہد کے زمانے میں جاری رکھا تھا جو ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ بی اے کرنے کے بعد انہوں نے بہت سے چھوٹے موٹے کام کیے، فٹ پاتھوں پر سوئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔

(علی سفیان آفاقی کے مضمون سے منتخب پارے)

Comments

- Advertisement -