سڈنی: آسٹریلوی ماہرین فلکیات نے انکشاف کیا ہے کہ ایک منحوس بلیک ہول ہمارے سورج کو ہر دو دن بعد آہستہ آہستہ کھاتا جارہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ماہرین فلکیات نے کہا ہے کہ معلوم کائینات میں یہ سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا قدیم ترین بلیک ہول ہے جس کی جسامت بیس ارب سورجوں جتنی ہے، جو ہردودن میں ایک درندے کی طرح ہمارے سورج کو کھا کر تابکاری کا ایک طوفان خارج کررہا ہے۔
فلکیات اور خلائی طبیعیات سے متعلق آسٹریلوی قومی یونی ورسٹی کے محقق کرسچن وولف نے کہا کہ یہ بلیک ہول تیز رفتاری سے بڑھنے کی وجہ سے ایک پوری کہکشاں سے بھی ہزاروں گنا زیادہ طاقت کے ساتھ چمک رہا ہے، جس کی وجہ وہ گیسیں ہیں جو یہ روزانہ نگلتا ہے اور اس کے نتیجے میں بے پناہ حرارت اور رگڑ پیدا ہوتی ہے۔
برطانوی میگزین ’آسٹرونامی ناؤ‘ کے مطابق اگر یہ عفریت ہماری کہکشاں کے ملکی وے کے وسط میں ہو تو یہ ایک پورے چاند سے دس گنا زیادہ چمکتا دکھائی دے گا۔ اس کی چمک اتنی حیرت انگیز ہوگی کہ آسمان کے تمام ستارے فنا ہوجائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: کہکہشاں کا تھری ڈی نقشہ
اس بلیک ہول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کائینات کی تشکیل کے ابتدائی زمانے میں بنا تھا، جب ماہرین فلکیات نے اسے پایا تو اس وقت یہ بارہ ارب نوری سال کے فاصلے پر تھا اور اس کی جسامت بیس ارب سورجوں جتنی تھی۔ یہ عظیم الجثہ بلیک ہول بالا بنفشی شعاعیں اور ایکس رے توانائی خارج کرتا ہے جسے یہ گیس اور دھول کی صورت میں نگلتا ہے اور پھر اتنی غضب کی حرارت پیدا کرتا ہے جس سے کوئی بھی مہمان کہکشاں تباہ ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مارس مشن 2020: زندگی کی تلاش میں جانے والا روبوٹ ٹیسٹنگ کے لیے تیار
وولف کا کہنا تھا کہ اگر یہ ملکی وے میں ہوتا تو زمین پر ایکس ریز کی وجہ سے زندگی ممکن ہی نہ ہوتی۔ اس بلیک ہول کی نشان دہی اسکائی میپر ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کی گئی ہے۔ کئی ماہ کی اس تلاش میں یورپی خلائی ایجنسی کے سیٹلائٹ گایا نے بھی مدد کی جو فلکیاتی اجسام کی معمولی سی حرکت کو بھی معلوم کرلیتا ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔