موسم سرما کے آغاز سے قبل ہی روس نے ستائیس ممالک کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
رواں سال فروری میں روس یوکرین پر جنگ کے بعد سر اٹھانے والے بحرانوں میں سے ایک توانائی کا بھی ہے جس سے یورپ خاص طور پر متاثر ہے کیونکہ وہ یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ اسے قدرتی گیس روس سے لینا پڑتی ہے۔
جنگ شروع ہونے کے بعد امریکا اور یورپ نہ صرف روس پر پابندیاں عائد کیں بلکہ یورپی یونین نے یوکرین کو رکنیت حاصل کرنے کے لیے امیدوار کا اسٹیٹس بھی دیا، جس پر روس نے گیس پائپ لائن ’نارڈ ون‘، اور ’نارڈ ٹو‘ بند کرنے کی دھمکی بھی دی۔
اس کے بعد یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ کیا یورپ روس کی گیس کے بغیر گزارا کر سکتا ہے؟غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک روسی صدر پیوٹن پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ توانائی کے ایشو کو جنگی حکمت عملی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور یورپ پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ روس پہلے ہی موسم سرما کے دوران یورپ کے لیے گیس کی فراہمی کم کر چکا ہے جبکہ روسی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کو ساٹھ فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر واقعی یہ کمی کر دی گئی تو یورپ کو کارخانے چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
نارڈ ون پائپ لائن کیا ہے؟
یہ روس سے یورپ کو جانے والی ایک اہم پائپ لائن ہے، یہ زیرسمندر جرمنی تک جاتی ہے اور اس کی زیادہ تر ضروریات کا دارومدار اسی گیس پر ہے۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نارڈ اسٹریم کو بند کیا گیا تو یورپ کے لیے مسائل پیدا ہوں گے،اسی طرح تین مزید پائپ لائنز بھی روس سے یورپ گیس پہنچاتی تھیں، جن میں سے ایک کو بند کر دیا گیا ہے جو پولینڈ اور بیلاروس کے راستے پہنچتی تھی۔
یوکرین اور سلواکیا کے راستے پہچنے والی گیس پائپ لائن ابھی کام کر رہی ہے تاہم جنگ کی وجہ سے سپلائی کم ہوئی ہے جبکہ ایک اور پائپ براستہ ترکی اور بلغاریہ پہنچتی ہے۔
روسی صدر کیا چاہتے ہیں؟
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ گیس کم ہونے کا مطلب ہے قیمتوں میں اضافہ ہونا، جس سے یقیناً صدر پوتن کو فائدہ ہو گا۔ حملے بعد سے روس کو گیس کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی سالانہ 95 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
یورپ متبادل طور پر کیا کر سکتا ہے؟
بحران سے نمٹنے کے لیے یورپ ممالک ایل این جی کی طرف گئے ہیں تاہم وہ مہنگی پڑتی ہے کیونکہ اس کو بحری جہازوں کے ذریعے امریکہ یا قطر سے منگوانا پڑتا ہے۔جرمنی اپنے شمالی سمندری ساحل پر ایل این جی کے درآمدی ٹرمینلز کی تیزی سے تعمیر کر رہا ہے، لیکن اس میں برسوں لگیں گے۔ چار تیرتے ہوئے استقبالیہ ٹرمینلز میں سے پہلا اس سال کے آخر میں فعال ہونا ہے۔
اسی طرح صرف ایل این جی سے تمام ضروریات پوری بھی نہیں ہو سکیں گی جبکہ اس کی پیداوار میں بھی کمی آ رہی ہے۔