اسلام آباد : سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا او معمولی تبدیلی کیساتھ انتخابی شیڈول بحال کردیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کا محفوظ فیصلہ سنادیا ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سنایا۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور کہا الیکشن کمیشن کو اس فیصلے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کوتاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا۔
سپریم کورٹ نے معمولی تبدیلی کیساتھ انتخابی شیڈول بحال کردیا اور کہا الیکشن کمیشن کےغیر آئینی فیصلےسے13دن ضائع ہوئے، الیکشن پروگرام میں ترامیم کی جائے۔
پنجاب میں 14مئی کو انتخابات ہوں گے، سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ پنجاب میں 14مئی کو انتخابات ہوں گے، کاغذات نامزدگی 10اپریل تک جمع کرائے جائیں جبکہ حتمی فہرست 19 اپریل تک جاری کی جائے گی اور انتخابی نشانات20 اپریل کو جاری کئے جائیں گے۔
سپریم کورٹ نے حکومت کو 10 اپریل تک فنڈز مہیا کرنے اور 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو فنڈ کی وصولی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانے کی ہدایت کردی اور کہا فنڈز نہ جمع کرانےکی صورت میں عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔
خیبرپختونخوا میں الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے حوالے سے وکیل نے دلائل نہیں دیئے، خیبرپختونخواکے حوالے سے الگ پٹیشن دائر کی جائے، عدالت اس پر مناسب حکم جاری کرے گی،گورنرخیبر پختونخوا کے وکیل کیس سے الگ ہوگئے، خیبرپختونخوا الیکشن کے حوالے سےدوبارہ رجوع کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ نگراں پنجاب حکومت ،چیف سیکریٹری ، آئی جی سیکیورٹی پرمعاونت کریں اور صوبائی حکومت بھی الیکشن کمیشن کےساتھ تعاون کرے جبکہ وفاقی حکومت آئینی ذ مہ داری پوری کرے اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن کومکمل تعاون اور سہولت فراہم کرے۔
الیکشن التوا کیس کا فیصلہ محفوظ
گذشتہ روز چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی درخواستوں پر انتخابات التوا کیس کافیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ حکومت نے ایسا کوئی موادنہیں دیاجس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں جبکہ حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا اور سیاسی مذاکرات کےآپشن کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں، وہ قانون سے بالاتر ہیں لیکن لوگ من پسند ججوں سے فیصلے کرانا چاہتے ہیں۔
الیکشن التوا کیس کی سماعتوں کے احوال
خیال رہے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر کیس کی سماعت کیلیے نو رکنی پینچ تشکیل دیا گیا، چیف جسٹس کی جانب سے تشکیل دیے جانے والا نو رکنی بینچ پہلے پانچ اور پھر تین رکنی بینچ تک محدود ہو گیا۔
سماعت سے انکارکرنے والوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
27 مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا۔
28 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسری سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ ’انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے، یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟ جبکہ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا‘۔
دوران سماعت انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ زیر بحث آیا جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے۔
29 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟
30 مارچ کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین جبکہ 31 مارچ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی کیس سنننے سے معذرت کرلی، جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
تین اپریل کو آخری سماعت میں اٹارنی جنرل نے مطالبہ کیا کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے، فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہورہا، سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ہے، وفاقی حکومت انتخابات کرانےکی یقین دہانی کرائے تو کچھ سوچا جاسکتا ہے، بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونےکے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔